منگل، 27 فروری، 2024

Haqeeqi Kaamiyabi | حقیقی کامیابی | اولاد کی تربیت

حقیقی کامیابی 


اولاد کا ڈاکٹر انجینئر اور اعلی تعلیم یافتہ ہونا کامیابی نہیں ؛ بلکہ اولاد کا نیک ہونا سعادت مندی اور بڑی کامیابی ہے۔۔۔
نیک اولاد کی نیکیوں کا صلہ والدین کو ان کی زندگی میں سکون و اطمینان اور موت کے بعد صدقۂ جاریہ کی شکل میں ملتا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ بچے یتیم ہیں جن کے والدین نے ان کی صحیح تعلیم و تربیت نہ کی ہو، ان کا مزاج دینی نہ بنایا ہو کہا جاتا ہے کہ جو شخص اولاد کی دینی تربیت کے بغیر مر گیا سمجھو وہ بے اولاد مر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔!

کسی کے بیٹے پریشان ہوں تو والدین لوگوں سے دعا کی درخواست کرتے ہیں؛ لیکن وہی بیٹے اگر فرائض عبادات اور نماز سے غافل ہوں تو والدین ان کیلئے کیوں نہیں تڑپتے۔۔۔۔۔!

!قارئین کرام
اگر دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں کس قدر کامیاب ہیں تو اس کا اندازہ ہم اپنے بچوں کو دیکھ کر ہی لگا سکتے ہیں، اگر ہمارے بچے 
دینی و اخلاقی طور پر اچھے نیک اور پرہیزگار ہیں تو یہی ہماری حقیقی کامیابی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بچوں کے صحیح اسلامی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا ربّ العالمین 🤲


#suggestions #suggestedforyou #Suggested 
#advice #adviceforlife #advicequotes #trend
#Rakibul_Islam_Salafi #Quotes_of_Rakibul_Islam_Salafi

جمعہ، 12 جنوری، 2024

استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی املوی

استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی املوی


املو ، مبارک پور کی سب سے قدیم اہل حدیث آبادی ہے، جس کی دعوتی وتنظیمی خدمات  کا دائرہ  نہایت  وسیع  ہے۔ حضرت مولانا عبد اللہ جھاؤ الہ آبادی نے اس بستی کوایک مدت تک اپنی دعوتی سرگرمیوں  کا محور بنائے رکھا۔ استاذ  الاساتذہ حضر ت مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ،محدث کبیر حضرت مولانا ابو القاسم سیف  بنارسی اور حضرت مولانا اسد اللہ روانوی وغیرہم متعدد بار مختلف دعوتی وتنظیمی ضرورتوں کے تحت قدم رنجہ فرمایا ہے۔

نام ونسب: محمد ادریس بن حاجی عبد العزیز بن محمد صدیق بن حاجی نور محمد بن چندن بن ایمن۔ تخلص آزاد تھا، چار  بھائیوں: محمد اسرائیل عرف مؤذن صاحب (وفات: ۱۳ مارچ ۱۹۸۲ء)، محمد بشیر(وفات: ۶ اپریل ۱۹۷۶ء) ، امیر احمد(وفات:۹ اگست ۲۰۰۴ء ) اور دو بہنوں  رابعہ (وفات: ۱۹۸۸ء)اور  حفیظ النساء (وفات: ۱۷ جنوری ۲۰۱۱ء) میں  سب سے بڑے  تھے، والدہ کا نام خدیجہ تھا جو بڑی سیدھی اورنیک خاتون تھیں، چھوٹے بچوں کو قرآن پڑھانا، دعائیں یاد کرانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔

خاندانی پس منظر: حضرت مولانا آزاد رحمانی کے أباء واجداد مہدی پور کے رہنے والے تھے جو املو سے چند میل کے فاصلے پر ہے۔  چندن صاحب حضرت مولانا عبد اللہ جھاؤ الہ آبادی کی دعوت  وتبلیغ سے متأثر ہوکر مسلک سلف کو اختیار کرلیا تھا، جس کی پاداش میں  آبائی  گاؤں مہدی پور میں انہیں بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک وہ ہجرت پر مجبور ہوئے اور املو  چلے  آئے۔  آپ کے پر دادا حاجی نور محمد صاحب  (وفات تقریبا: ۱۹۱۰ء)متبع سنت، دین دار اور صاحب  ثروت  انسان  تھے، مجدد وقت حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی سے خاص تعلق رکھتے تھے، ایک خط میں انہیں املوتشریف لانے کی دعوت  بھی دی تھی۔ انہوں  نے  اپنے  مکان  سے متصل ایک  عالی شان مسجد  کی تعمیر کروائی،  ایک گوشے میں دینی تعلیم کے لئے ایک مکتب بھی جاری کیا جو آج بھی برقرار ہے، والد محترم منشی  عبد العزیز (وفات: ۱۹۷۷ء)ایک عرب  تاجرمولانا عبد الحق  مدنی  کے فیض یافتہ  تھے، پورا  گاؤں خط  پڑھانےیا لکھوانے کے لئے آپ  ہی سے رجوع کرتا تھا۔ یہ خاندان آج بھی اپنی دینی اور سماجی خدمات  کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حضرت مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی اس گھرانے کے ایک نامور اور جلیل القدر عالم دین تھے۔

تعلیم وتربیت: ابتدائی تعلیم خاندانی مکتب‘‘مدرسہ حاجی نور محمدصاحب’’میں ہوئی، پھرمدرسہ  دار التعلیم مبارک پور  پہونچے،  یہاں سے  مدرسہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن کا رخ کیا،اس طرح  مختلف اساتذہ سے خوشہ چینی  کرتے ہوئے  اپنے استاذ گرامی حضرت مولانانذیر احمد رحمانی املوی کےساتھ شوال ۱۳۵۳ھ مطابق ۱۹۳۴ء دہلی آگئے اور دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں تیسری جماعت میں داخلہ لیا ، دہلی کی وسیع فضاء راس آئی اور یہاں انہیں اپنی خوابیدہ  صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا خوب موقع ملا۔  رفقاء درس میں کچھ کے نام معلوم ہوسکے ، جو کچھ اس طرح ہے:  ابو  الخیر  فاروقی  پریوائی،عبد الشکور، عبد الجلیل  بنگالی ، شمس الحق  سلہٹی، عبد الولی آروی، محمد محبوب  الرحمن ، محمد حسن گونڈوی  وغیرہ۔

آزاد صاحب مدرسہ کی علمی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیتے تھے، چنانچہ پہلے  سال میں خوش خطی پر انعام  کے مستحق پائے اور درجہ ہفتم میں اردو تحریر وتقریر پر مبلغ آٹھ روپئے انعام سے  نوازے گئے۔

حضرت مولاناآزاد املوی زمانہ طالب علمی ہی  سے بہت بے باک تھے۔ ۱۹۹۹ء کی ایک ملاقات کے دوران حضرت مولانا محمد  امین اثری رحمانی مبارک پوری  نے راقم الحروف کو بتایا کہ آزادصاحب کانگریسی تھے اور  ہفتہ  واری تقریری انجمنوں میں بھی مسلم لیگ کی نمائندگی کرنے والوں کی خوب خبر لیتے تھے۔ ایک دفعہ کسی انجمن  میں جس کی صدارت استاذ گرامی مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک  پوری  کررہے تھے،  کہ انجمن میں دفاعی اور جوابی سلسلہ دراز ہوگیا، اغراض و مقاصد کو فوت ہوتے  دیکھ کر درمیان ہی میں چلے گئے، سارے طلبہ  پریشان  کہ اب کیا جائے ، پھر اتفاق رائے سے سارے بچے صدر محترم کے کمرہ  میں پہونچ  کر معافی  مانگی، تب کہیں جاکر انجمن مکمل ہوئی۔

اساتذہ:

۱ ماموں عبدالغفار صاحب (مدرسہ نور محمدمرحوم )۔

۲ مولانا محمد اصغر مبارک پوری۔(مدرسہ دار التعلیم مبارک پور)

۳ حضرت مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری(مدرسہ دار التعلیم مبارک پور)۔

۴ حضرت مولانا محمد احمد مئوی۔(مدرسہ فیض عام مئو)۔

۵ حضرت مولانا عبد اللہ شائق مؤی۔(مدرسہ فیض عام مئو)۔

۶ حضرت مولانا عبد الرحمن نحوی ۔(مدرسہ فیض عام مئو)۔

۷ حضرت  مولانا  احمد  اللہ محدث  دہلوی  پرتاب گڈہی۔(دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔

۸ حضرت مولانا عبید اللہ محدث مبارک پوری۔(دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔

۹ حضرت مولانا نذیر احمد محدث املوی۔(دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔

۱۰ حضرت مولانا عبد الحلیم ناظم رحمانی پیغمبر پوری (دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔

۱۱ مولانا سکندر علی ہزاروی۔(دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔

۱۲ حضرت مولانا عبد الغفور بسکوہری (دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔

۱۳ حضرت مولانا عبد اللہ ندوی۔(دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔

۱۴ حضرت نواب سراج الدین سائل دہلوی نواب آف لوہارو (۱۸۶۴ء۔۱۹۴۵ء)۔اس لحاظ سے حضرت آزاد املو ی استاذ الشعراء حضرت داغ دہلوی کے بیک واسطہ شاگرد اور داغ اسکول کے نمائندہ شاعر ہوئے۔

۱۵ حافظ اسلم جے راج پوری (۱۹۴۲ء)

۱۶ حضرت بے خود دہلوی (۱۸۶۳ء۔۱۹۵۵ء)

۱۷ ڈاکٹر سعید احمد رائے بریلوی۔

ان ناموراساتذہ کے علاوہ دار الحدیث رحمانیہ کی مختلف تقریبات میں تشریف لانے والے اہلعلم، جیسے:حضرت مولانا محمد  جونا گڈھی، شیخ الاسلام حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری، مفسر قرآن حضرت مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی،محدث کبیر حضرت مولاناابو القاسم سیف بنارسی ،حضرت مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی،علامہ عبد العزیزمیمنی، حضرت مولانا عبد الجبارمحدث کھنڈیلوی، حضرت مولاناابو الکلام آزاد،ڈاکٹر ذاکر حسین، حضرت مولاناابو یحیی خان نوشہروی، حضرت مولانا سید داؤد غزنوی، حضرت مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی ،شیخ ابراھیم  الجیالی،شیخ محمد حبیب، شیخ محمد صلاح الدین النجار،شیخ عبد الوہاب النجار،شیخ محمد احمد العدوی (وفد جامعۃ  الازہر)، علامہ عبد العزیز الثعالبی،مشہور مصلح  وامام علامہ عبد اللہ محمد قرعاوی، شیخ عبد اللہ محمد شریف مکی (مدیر مجلہ صوت الحق ومؤلف کتاب: الہند  بین الماضی والحاضر،عربی اور اردو دونوں  پر  قدرت  رکھتے تھے) کے ساتھ اٹھنے، بیٹھنے  اور  سننے  کا شرف  حاصل رہا ہے۔

درس وتدریس: فراغت کے بعد دو سال تک تجارت میں مشغول رہے، پھر اپنےاستاذ حضرت مولانا نذیر احمد رحمانی کے کہنے  پر ۱۹۴۲ء  میں انوار العلوم کے نام سے  ایک مدرسہ قائم کیا، جس کی انتظامی امور  کی دیکھ ریکھ کے ساتھ درس کے فرائض انجام  بھی دیتے  رہے۔ یہ مدرسہ اتنا  کامیاب ہوا کہ چند دنوں میں بچوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی  کہ ایک دوسرے مدرس کا  اضافہ کرناپڑا، تعلیم بھی نحو میر اور  پنج  گنج  تک ہونے  لگی ۔ امتحانات حضرت مولانا نذیر احمدرحمانی  بہ ذات خودلیتے  تھے ، بعض نامعلوم اسباب  کے تحت غالبا ۱۹۵۰ء  میں مدرسہ دار التعلیم منتقل ہوگئے۔ اگست ۱۹۵۲ء میں ڈاکٹر سید عبد الحفیظ سلفی کی دعوت پر مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ تشریف لئے گئے، یہاں پر آپ کودیگر ذمہ داریوں کے ساتھ پندرہ روزہ‘‘الہدی’’ کی ادارت بھی سونپی گئی، اسے خوب سے خوب تربنانے میں جی جان سے لگ گئے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ مجلہ ملک کے مقبول مجلات میں شمار ہونے لگا۔ ۱۹۵۵ء  میں ‘‘دار العلوم احمدیہ سلفیہ’’اور ۱۹۵۶ء  میں ‘‘امام بخاری’’ پر خاص نمبرنکالے، جسے ملک اوربیرون ملک میں کافی پذیرائی ہوئی اور اپنے موضوع پر نہایت وقیع پیش کش قرار پایا۔  اپریل ۱۹۶۳ء میں حضرت مولانانذیر احمد رحمانی  املوی کے حکم پر جامعہ رحمانیہ  بنارس  چلے  آئے ،  پھر جب جامعہ سلفیہ مرکزی دار العلوم قائم ہوا تو  یہاںمنتقل کردئے گئے، یہاں پر بھی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ صوت الجامعہ کے مدیر رہے، حضرت آزاد رحمانی جہاں طلباء میں نہایت محبوب رہے، وہیں انہیں ارباب انتظام کا تعاون اور اعتماد بھی برابر حاصل رہا، جو کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔

تلامذہ: آپ سے استفادہ کرنے والوں  کی  تعداد  کافی  ہے، نمونے کے طور  پر  چند  نام  ذکر  کر رہے ہیں: ڈاکٹر  عبد الوہاب خلیل الرحمن صدیقی مرحوم، ڈاکٹر فضل الرحمن دین محمد مدنی، ڈاکٹر جاوید اعظم بنارسی، شیخ ابوالقاسم ابو الخیر  فاروقی، ڈاکٹر عبد الرحمن عبد الجبار الفریوائی،ڈاکٹر محمد ابرھیم محمد ہارون مدنی،شیخ عبید اللہ طیب بنارسی، شیخ  رفیع احمد محمد عاقل مدنی ، شیخ محمد عزیر شمس، شیخ صلاح الدین محمد مقبول،  شیخ  عبد الجلیل  مکی  وغیرہم ہیں۔

مقامی شاگردوں میں حضرت مولانا  قرۃ العین  املوی  (۱۹۳۸ء۔۲۰۱۴ء)،مولانا قاری محمد زبیر  مبارک پوری( )،  والد محترم ڈاکٹر حافظ عبد العزیزمبارک پوری، ڈاکٹر رضاء اللہ مبارک پوری (۱۹ء۔۲۰۰۳ء)،  حضرت مولانا عبد الکبیر  مبارک پوری، مولاناحفظ الرحمن مدنی ، مولانا مظہر الحق املوی وغیرہم سر فہرست ہیں۔

تصنیف وتألیف: حضرت مولانا آزاد رحمانی املوی کو تصنیف وتألیف اور تحقیق وتنقید سے بھر پور مناسبت تھی، طالب علمی ہی سےبرابراور بڑی روانی سے لکھتے تھے، سادگی، سلاست وبےساختگی اورالفاظ کا برمحل استعمال آپ کی تحریروں کا امتیاز ہیں۔ محدث اور اخبار محمدی میں متعدد مضامین اور نظمیں مطبوع ہیں، محدث میں روح اخبار کے نام سے مستقل ایک کالم پیش کرتے تھے، جو پورے مہینہ کی نہایت اہم خبروں کا خلاصہ ہوتا تھا، اور آپ کی اردو زبان وبیان پر دسترس کا بہترین مرقع ہوتا تھا۔ اسی زمانے میں غواص آفاقی کے مستعار نام سے سیاسی افسانے بھی لکھتے تھے، جو پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھے گئے، حضرت آزاد رحمانی کی تابناک زندگی کا یہ اوجھل گوشہ ریسرچ اسکالرز کی توجہ چاھتا ہے، میرے  فاضل دوست محٹرم ڈاکٹر جاویدرحمانی اسٹنٹ پروفیسر اردو آسام یونیورسٹی، سلچرکے بیان کے مطابق علماء کے طبقہ میں  مولانا آزاد رحمانی  جیسی عمدہ نثر  لکھنے والا میں نے نہیں دیکھا ہے، ان کے خیال کے مطابق ان کے مضامین کو یکجا کرکے شائع کیا جاناچاہئے۔  افسوس کہ  تدریس اور دیگر  مصروفیتوں نے  اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کا موقع نہیں دیا، پھر بھی متعدد تصنیفات موجود ہیں:

 1-نبی ﷺ کی نماز: غالبا  آپ کی پہلی تصنیف ہے،۵۶ صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار مطبع حمیدیہ دربھنگہ سے ۱۹۶۷ء  میں  چھپی تھی، اہمیت کے پیش نظر دوبارہ تحقیق کے ساتھ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔

        ۲۔عصمۃ  الانبیاء: امام ابن حزم اندلسی نے اپنی  کتاب الملل والنحل  میں عصمت  انبیاء  پر مبسوط   بحث  کی  ہے، اسی  بحث کو مولاناآزاد رحمانی نے اردو  کا جامہ پہنایا ہے، الہدی میں قسط وار چھپ چکا ہے، اگر کتابی شکل میں طبع کیا جائے تو اردو دنیا میں ایک قابل قدر اور مستند اضافہ ہوگا۔

        ۳- الآیات البینات فی رد الشرک والبدعات: اس کتاب میں مولانا خالد عمری نے شرک وبدعت سے متعلق آپ کے دو مفصل فتاوی کو جمع  کردیا ہے ۔

۴-الموازنۃ  بین  ابی بکر وعلی رضی اللہ عنہما: امام ابن حزم اندلسی نے  اپنی  کتاب  الملل والنحل میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہما کے درمیان علمی موازنہ کیا ہے،  اسی مضمون کو آپ نے اردو کا  قالب دیا ہے، الہدی دربھنگہ میں متعدد قسطوں شائع ہوچکا ہے، بر صغیر کے مخصوص ماحول (افراط وتفریط)کے پیش نظر دوبارہ کتابی شکل میں شائع کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

۵- تیسیرالعزیزالحمید شرح کتاب التوحید (اردو  ترجمہ): حضرت شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی معروف ‘‘ کتاب التوحید’’  کی مفصل شرح ہے۔ مصنف کا نام سلیمان بن عبد اللہ بن شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب  آل الشیخ (۱۲۰۰ھ/1233ھ) ہے۔ اصل متن اور شرح دونوں صحیح عقیدہ پر نہایت مدلل  کتاب ہے، ان کا شمار سلفی دعوت ومنہج کی بنیادی  کتابوں میں ہوتا ہے۔ اردو زبان میں منتقل کرنے کی سخت ضرورت تھی۔ اسی جذبے سے سرشار ہوکر حضرت مولانا آزاد رحمانی نے کتاب کا ترجمہ کرنا شروع کیا تھا، نصف سے کچھ  زیادہ  ترجمہ کر ہی پائے  تھے کہ بلاوا آگیا، اس کی تکمیل اور طباعت  کی بڑی  آرزو تھی، بہ ظاہر تکمیل  کی  کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی کہ مولانا کے داماد مولانا سعید سالم املوی/حفظہ اللہ اورحضرت مولانا صفی الرحمن مبارک پوری (۲۰۰۶ء)کی کوششوں سے طبع ہوچکی ہے۔ اپنے مشمولات کے لحاظ سے اس کتاب کو بار بار چھاپ کر عوام تک پہونچانا چاہئے تھا، سعودی عرب میں اس کتاب کا محقق ایڈیشن طبع ہوچکا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے مراجعہ اور نظر ثانی کے بعد دوبارہ منظر عام پر لایا جائے۔

        ۶-تاریخ مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس(نامکمل): آپ کی شدید خواہش تھی کہ مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ  بنارس کی مفصل تاریخ مرتب ہو، اسی  داعیہ کے تحت کام  کرنا بھی شروع  کردیا تھا  کہ زندگی کا چراغ ہی گل ہوگیا۔ خوشی کی بات ہے کہ استاذ گرامی حضرت مولانا محمد مستقیم سلفی نے اس سلسلہ کی تکمیل فرمائی ہے۔

۷- شرح  القرأۃ  الرشیدہ: غالبا اس کا مسودہ غائب ہوچکا ہے ۔

        ۸- فتاوی  آزاد  رحمانی:  تحریر کی یہ صنف انتہائی نازک اور بے حد صبر آزما ہوتی ہے، اس باب میں بھی آپ کا راہوار قلم میانہ روی کے ساتھ دوڑتا ہوا نظر آتا ہے، طرز استدلال، اسلوب تحقیق اور تنقیح مسائل واستدراک میں اپنے پیش رو اساتذہ حضرت مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی، حضرت مولانا عبید اللہ رحمانی شیخ الحدیث مبارک پوری اور حضرت مولانانذیر احمد رحمانی کے شانہ بہ شانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ دربھنگہ اور جامعہ سلفیہ  بنارس کے رجسٹر سے ان کے فتاوی کو مرتب کیا جائے تو مشفق گرامی مولانا رفیع احمد  عاقل مدنی کےبیان کےمطابق چار ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں، افسوس کہ یہ جواہر پارے تحقیق وترتیب اور اشاعت کے منتظر ہیں۔

۹-  مجموعہ مقالات آزاد رحمانی: ہند  وپاک کے مختلف  مجلات وجرائد میں بکھرے  آپ کے مضامین کو جمع کیا جائے  تو کم ازکم تین جلدیں تیار ہوجائیں گی، خوشی کی بات یہ ہے عزیزم  مولوی راشد حسن  فضل حق مبارک پوری  اس  پر  کام  شروع  کرچکے  ہیں۔

        ۱۰- شعری مجموعہ: افسوس کہ آپ کی شعری بیاض مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کا  کوئی طالب علم جو نظموں کو جلسوں میں پیش کرتا  تھا  لے  اڑا، غائب ہوجانے کا بڑا قلق تھا، پھر بھی مختلف جرائد ومجلات میں  چھپنے والی نظموں اور غزلوں کو جمع کیا جائے تو ایک مفید شعری مجموعہ تیار ہوسکتا ہے جو منہج سلف کی پابند  اور نمائندہ شاعری ہوگی۔

یہاں پر حضرت آزاد املوی کی شاعری پر مولانا قمر الزمان مبارک پوری کا جامع تبصرہ نقل کر رہے ہیں: ‘‘انہوں نے اپنی شاعری میں اسلامی جذبات اور مذہبی خیالات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے، غزل ونظم دونوں پر قدرت حاصل تھی، غزلوں میں تغزل کے ساتھ عصری مسائل اور قومی وملی درد کا بھی اظہار ہوا ہے، انہوں نے لفظوں کے استعمال میں سیاق وسباق کا خاص خیال رکھا ہے اور اس باب میں اپنی شعوری بیداری اور ادبی صلاحیت کا ثبوت فراہم کیاہے۔ ان کا کلام مختلف اخبار ورسائل کی زینت ہوا کرتا تھا، بڑے زود گو شاعر تھے، طنزیہ ومزاحیہ رنگ میں بھی کہہ لیتے تھے۔ مذہبی سرگرمیوں کو نظم کا لباس پہنایا کرتے تھے، ان کے یہاں ماضی کو یاد کرکےحال کو سنوارنے کے ساتھ عصری زندگی کا مرثیہ بھی ملتا ہے۔ یہ سلف صالحین کے زمانے سے اپنے دور کاتقابل کرکے مسلمانوں کی زبوں حالی کا نوحہ وماتم بڑے درد بھرے انداز میں کرتے ہیں۔ انہوں اپنی شاعری میں اسلاف کے کارناموں پر روشنی ڈال کر، ان کی اتباع پر مسلمانوں کو ابھارنے کی کوشش کی ہے، ان کے یہاں لفظوں کے بر محل استعمال کی پختہ شعوری کے ثبوت اور اسلامی حوالے کثرت سے ملتے ہیں۔ ان کے دور میں ان کی شاعری کا اہل علم کی مجلسوں میں بڑا چرچا اور شعر وشاعری سے تعلق رکھنے والوں میں خاص اثر تھا۔ مولانا آزاد کی شاعری کو ان تمام مقامات پر حسن قبول حاصل تھا، جہان مساجد ومدارس کی تعمیر کے سلسلے میں چندے ہوا کرتے تھے، اور چندوں کی فراہمی کے لئے خوش الحان نظم خوانوں کی ٹولیاں چندے کی نظمیں پڑھا کرتی تھیں۔ ان چندوں میں آزاد رحمانی کی نظمیں بڑے زوق وشوق اور خاص توجہ سے سنی اور پسند کی جاتی تھیں۔ مولانا اس موضوع کی نظموں میں  عہد صحابہ (رضی اللہ عنہم) اور سلف صالحین کے تاریخی واقعات اور چندہ دینے کے سلسلے میں ان کے کردار وایثار کی ایسی مرقع کشی کرتے تھےکہ جذبہ داد ودہش دیوانگی کی حد تک پہونچ جاتا تھا۔ مولانا اپنی نظموں میں صدقات وخیرات کے تعلق سے قرآن واحادیث اور تذکرہ وسیر کی کتابوں میں مذکور سخاوت وفیاضی کی سچی داستانوں کے حوالے شامل کرکے، ان کو خاصے کی چیز بنادیا کرتے تھے۔ ان میں اللہ نے برجستگی، زود گوئی اور خوش گوئی کی بڑی صلاحیت رکھی تھی، اس لئے ان کے موضوعاتی اور وقتی کلام بھی دلچسپ اور لائق توجہ ہوا کرتے تھے’’

        وفات: آپ ہمیشہ لکھنے پڑھنے میں غرق رہتے تھے، جس سے صحت  نہایت متأثر  ہوئی اور  شوگر کا  مرض  لاحق  ہوگیا، جس کے میں نتیجے دیگر عوارض بھی پریشان کرنے لگے، والد صاحب کے بیان کے مطابق لکھتے  لکھتے جب تھک جاتے تو  لیٹے لیٹے لکھنا  شروع  کردیتے  تھے، صحت بہ ظاہر ٹھیک تھی، اپنے ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھا رہے تھے کہ اچانک۲۹ جمادی الاول ۱۳۹۸ھ مطابق ۶ مئی ۱۹۷۸ء  بہ روز سنیچر بہ وقت صبح  طبیعت بگڑی اور آنا فانااپنے رب سے جا ملے۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا، میت کو وطن ‘‘املو’’ لایا گیا، بعد نماز عشاء دادا حضرت مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی، اور  آبائی قبرستان  میں تدفین ہوئی۔ رحمہ اللہ تعالی رحمۃ واسعۃ.

مولانا آزاد صاحب کی شادی خاندان ہی میں ھاجرہ خاتون سے ہوئی تھی، جو بڑی پرہیز گار اور پابند سنت خاتون تھیں(وفات کی تاریخ نہیں معلوم ہوسکی)، کے دو بیٹے: عبد الاحد اور عبد الواحد اور دو بیٹیاں ہیں: بلقیس اور بشیرہ۔ بشیرہ (وفات۵ ستمبر ۲۰۱۴ء) کے علاوہ سب با حیات اور خوش وخرم ہیں، چھوٹے بیٹےعبد الواحد صاحب ایک مدت تک مدرسہ انوارالعلوم میں مدرس رہے ہیں، میرے ہم سبق اور دوست مولانا عبد الحسیب عبد الواحد  املوی  جا معہ سلفیہ بنارس اور فیض عام مئو ناتھ بھنجن سے تحصیل علم کے بعد ریاض میں بر سر روز گار ہیں اور مولانا مرحوم کے جانشین ہیں۔

 ۱ مقدمہ  اہل حدیث اور سیاست ص:۱۲-۱۳-۱۴-۱۵۔

۲ الشیخ  آزاد الرحمانی ص: ۹۷  مجلۃ  الجامعہ السلفیہ (عربی) رفیع احمد عاقل مدنی۔

۴  الشیخ  آزاد  الرحمانی ص: ۹۸ مجلۃ الجامعہ السلفیہ (عربی) رفیع احمد عاقل مدنی۔

 ۵  قیمتی پتھروں اور موتیوں کی تجارت کرتے تھے،کسی مناسبت سے املو آئے ایک مدت تک املو میں قیام پذیر رہے۔ مقدمہ اہل حدیث اور سیاست ص: ۱۷۔

5 اس مضمون میں خاندانی پس منظر اور بزرگوں کی تاریخ وفات مولانا آزاد صاحب کے برادر زادے اور میرے خالو محترم حاجی محمد مصطفی بن محمد بشیر صاحب نے فراہم کیا ہے۔

۶ محدث جلد نمبر: ۲ شمارہ نمبر: ۸شعبان ۱۳۵۳ھ مطابق ۱۹۳۴ء۔

۷ محدث جلد:۶، شمارہ نمبر: ۵رجب ۱۳۵۷ھ مطابق ۱۹۳۸ء۔

۷  آپ صوفی عبد الرحمن  سلفی صاحب  کے پوتے ہیں جو مدرسہ  احمدیہ  سلفیہ  دربھنگہ کے  سابق  مدرس  اور الہدی  کے  مدیر رہ چکے ہیں۔

۸   مجلۃ  الجامعہ السلفیہ (عربی) ص: ۷۰  الشیخ آزاد الرحمانی رفیع  احمد عاقل مدنی،  سخنوران اعظم گڈھ ص: ۱۲۵-۱۲۶-۱۲۷-۱۲۸ قمر الزمان مبارک پوری، طبع اول ۲۰۱۵ء۔

۹  مجلۃ  الجامعہ السلفیہ (عربی) ص: ۷۰  الشیخ آزاد الرحمانی رفیع  احمد عاقل مدنی۔

۱۰ سخنوران اعظم گڈھ ص: 126-127 قمر الزمان مبارک پوری۔


یہ تحریر کسی اور کی ہے
رقیب الاسلام بن رشید علی منڈل آسامی سلفی

جمعرات، 7 ستمبر، 2023

ترانہ جامعہ سلفیہ (مرکزی دار العلوم) بنارس، ہند | رقیب ابن رشید سلفی

ترانہ جامعہ سلفیہ بنارس




سحرکا پیرہن ہیں ہم بہار کی ردا ہیں ہم

بدن پہ زندگی کے رنگ و نور کی قبا ہیں ہم

چراغ کی طرح سرِ دریچۂ وفا ہیں ہم


مغنی حرم ہیں بربطِ لب حرا ہیں ہم

کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوشنوا ہیں ہم


کشود عقدۂ حیات معتبر ہمیں سے ہے

شعور جستجوئے ذات معتبر ہمیں سے ہے

تمام علم کائنات معتبر ہمیں سے ہے


خلاصہ اصل میں کتاب کائنات کا ہیں ہم

کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوشنوا ہیں ہم


سراغ جادۂ عمل حدیث مصطفی ہمَیں

اسی کا حرف حرف ہے نشاطِ ماجرا ہمَیں

نہیں قبول اب کوئی پیام دوسرا ہمَیں


اداشناس عظمتِ حدیث مصطفی ہیں ہم

کہ گلشنِ رسول کے طیورِخوشنوا ہیں ہم


یہ گاہوارہ ظاہری و باطنی علوم کا

مدینۃ السلف ہمارے مشرقی علوم کا

یہ ایک تربیت کدہ ہے مرکزی علوم کا


اسی فضائے دلکشامیں آج پَرکُشاں ہیں ہم

کہ گلشنِ رسول کےطیورِخوشنوا ہیں ہم


اسی کے خوشہ چیں ہیں ہم ہمارا جامعہ ہے یہ

بلاغت و معانی و بیاں کا گل کدہ ہے یہ

عرب کے طرزِ فکر سے عجم کا رابطہ ہے یہ


اسی کے لمس جاوداں سے روحِ ارتقاء ہیں ہم

کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم


کھلیں گے رمز لوح کے کہ اب قلم ہے سامنے

تمام حاصلِ حیات بیش و کم ہے سامنے

ہراک طرف کہ جلوۂ رخِ حرم ہے سامنے


بنارس اب کہاں رخِ حرم کا آئینہ ہیں ہم

کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم


نگاہ میں عہد رفتہ اب بھی حال کی طرح

سلف کا شیوہ سامنے ہے اک مثال کی طرح

صنم کدے میں ہم نے دی اذاں بلال کی طرح


نفس ہیں جبرئیل کا بلال کی نداہیں ہم

کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم


یہ حرف برگزیدہ و شگفتہ کس زباں کا ہے

یہ نقش کس کی ندرت و لطافت بیاں کا ہے

یہی کلام حق وظیفہ قلب و جسم و جاں کا ہے


بتائیں کیا ازل سے ان کے ذوق آشنا ہیں ہم

کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوشنوا ہیں ہم


ورق ورق بصیرتوں کی روشنی سجائیں گے

حرارتِ یقیں سے پھردلوں کو جگمگائیں گے

نظر کو درسِ اسوۂ پیمبری سکھائیں گے


نقیبِ فضل و دانش و صداقت و صفا ہیں ہم

کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم


خداکرے فضاؔ یوں ہی یہ خواب جاگتے رہیں

یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں

ہنرورانِ سنت وکتاب جاگتے رہیں


چمن چمن بشارتِ نسیم جاں فزاں ہیں ہم

کہ گلشنِ رسول کےطیورِ خوشنوا ہیں ہم


فضاابن فیضیؔ

اتوار، 8 مئی، 2022

آخر سلفیت ہی کی پیروی کیوں

 تقریباً 3 گھنٹے کی محنت کے بعد یہ پوسٹ آپ کے سامنے ہیں لہذا آپ بھی اپنا قیمتی وقت نکال کر اسے پڑھیں 


❓''آخر سلفیت ہی کی پیروی کیوں❓


🎙️ فضیلۃ الشیخ عبد الحسیب مدنی حفظہ اللہ


‘ تحقیق کی راہ میں یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ جو آدمی اس حقیقت سے واقف ہے کہ یہاں اختلاف ہے، یہاں مختلف منہج ہیں، مختلف طریقے ہیں اور ہر کوئی کسی نہ کسی منہج کے بارے میں یہ دعوی رکھتا ہے کہ وہی برحق ہے، اسی کا منہج صحیح ہے، نجات کا راستہ وہی ہے تب ایسے حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ : نہیں ! سارے منہجوں سے کٹ کر سلف صالحین ہی کے منہج کی پیروی کرنا چاہیے تو یہ ایک سیدھا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟ کیوں ہم اسی کی پیروی کریں؟ کیوں اس کے علاوہ کسی اور کی پیروی نہ کریں؟


اس کا جواب ہم قرآن وسنت اور تاریخ کے حوالے سے تلاش کریں تو ہمیں مختلف ایسے اسباب ملیں گے جو صحابہ ہی کو مقدم رکھنے کی تعلیم وہدایت دیتے ہیں۔ کتاب وسنت میں کئی ایسی بنیادیں ہیں جن کے ہوتے ہوئے ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہدایت کا سامان صحابہ کے طریقے سے ہٹ کر کسی اور طریقے میں ہوسکتا ہے۔

 مذکورہ وجوہات اور بنیادوں میں سے چند پیش خدمت ہیں :


1️⃣سب سے پہلا جواب یا پہلی وجہ یہ ہےکہ یہ اللہ کا اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ آپ دین کی سمجھ میں صحابہ کو مقدم رکھیں، صحابہ کے طریقے پر چلیں۔ سورۃ توبہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : {والسابقون الأولون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم ورضوا عنہ} اچھائی اور نیکی کے معاملے میں انصارومہاجرین میں سے جو ابتدا میں ایمان لے آئے ہیں اور جو بعد میں ایمان لے آئے اور ان کے نقش قدم پر چلے . 

اس کی تفسیر میں علماء نے دو باتیں کہی ہیں۔ بعض مفسرین نے کہا کہ ”السابقون الأولون“ سے ابتدائی مسلمان مراد ہیں "والذين اتبعوهم" سے فتح مکہ کے بعد کے مسلمان ہیں۔ اور بعض آنے والے سبھی مسلمان ہیں، اگر یہ بعد میں آنے والے ان صحابہ کے نقش قدم پر چلیں تو کیا ہو گا؟ ’’رضي الله عنهم ورضوا عنہ' ' یعنی یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہ حقیقت میں اللہ تعالی سے راضی ہوئے۔ اور جب یہ ہوا تو اللہ تعالی بھی ان سے راضی ہو جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ اللہ تعالی کا حکم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا حکم کہاں ہے؟ مشہور حدیث میں نبی ﷺکی پیشن گوئی کہ امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے 72 جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا۔ نجات پانے والے اس گروہ کے بارے میں صحابہ نے پوچھا وہ کون ہیں؟ مختلف روایات میں مختلف الفاظ ہیں، ایک روایت میں آپ نے فرمایا: "ما أنا عليه اليوم وأصحابي“ یعنی وہ میں اور میرے صحابہ جس طریقے پر قائم ہیں، گویا نبی کریم ﷺ نے امت کو صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کا حکم دیا ہے۔ وہ اللہ کے نبیﷺ کے شاگرد ہیں۔ نبی سے بہتر کوئی استاد نہیں ہوسکتا اور نبی کے شاگردوں سے بہتر کوئی شاگرد نہیں ہوسکتے۔ صحابہ نبی کے شاگرد ہیں، قرآن کریم انھوں نے نبی ﷺ سے سمجھا ہے، حدیث انھوں نے نبی سے سمجھی ہے۔ یہ بات محض کوئی دعوی نہیں حقیقت ہے۔ 

مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک اثر منقول ہے تابعی ابوعبد الرحمن عبداللہ بن حبیب بیان کرتے ہیں کہ جن صحابہ نے ہمیں دین سکھلایا وہ کہتے ہیں کہ ہم دس آیتیں پہلے نبی ﷺ سے پڑھنا سیکھ لیتے، پھر ان کا معنی و مطلب سیکھتے۔ پہلے پڑھنا سیکھتے پھر معنی و مطلب جانتے۔جب یہ ہوجاتا تو اس پر عمل کرتے۔ یہ تینوں مرحلے ہوجاتے تو پھر مزید دس آیات سیکھتے۔ 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف قرآن کے الفاظ ہی نہیں معنی و مطلب بھی سمجھا ہے۔ جب یہ طے ہے کہ صحابہ نے نبی کی شاگردی میں دین سیکھا ہے تو نبی کریمﷺ کی شاگردی سے بہتر کوئی شاگردی نہیں اور ان سے بہتر سمجھ کسی اور کی ہو نہیں سکتی


2️⃣دوسرا جواب یا دوسری وجہ یہ کہ نبی ﷺ کے صحابہ دین کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔ کیا دلیل ہے اس بات کی؟؟


ایک شبہہ اور اس کا ازالہ :


نبی کریمﷺ سے ایک حدیث مروی ہے جس کا معنی لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا : ”بلغوا عني ولو آية فرب مبلغ أوعى من سامع" یعنی بسا اوقات وہ آدمی جس تک حدیث پہنچائی جارہی ہے پہنچانے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہوتا ہے یا سمجھنے والا ہوسکتا ہے۔ اس حدیث کو لے کر بعض لوگوں نے بڑا عجیب مسئلہ نکالا وہ یہ کہ نبی ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ صحابہ کے بعد آنے والے ان سے بہتر سمجھ کے ہو سکتے ہیں۔ اب

اس حدیث کو بھی آپ سمجھ لیں۔ عربی زبان میں رب“ کا معنی ہوتا ہے '' تھوڑے‘‘ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کو یا دین کو دوسروں تک پہنچایا کرو۔ 

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض باتیں بعد میں آنے والا ایک آدمی پہلے والے آدمی سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔ اس حیثیت سے یہ حقیقت ہے کہ بسا اوقات بعض چھوٹے صحابہ جنھیں نبی کریم سے شرف تلمذ، نبی ﷺ کی شاگردی کا زیادہ حصہ نصیب نہ ہوا، صرف ایک یا دو مجلس اللہ کے نبی ﷺ کے پاس رہے، ایسے صحابہ کے مقابلے میں بعد میں آنے والے بعض وہ تابعین جنھوں نے بڑے بڑے صحابہ سے علم حاصل کیا ان کی سمجھ زیادہ وسیع رہی ہے۔ تاریخ اسلام میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے اور نہ اس حدیث کے اندر یہ دلالت ہے کہ بعد کے لوگ صحابہ کی جماعت سے زیادہ بحیثیت جماعت یا صحابہ میں سے بڑے اونچے درجے

کے صحابہ سے زیادہ بہتر سمجھ والے ہوجائیں گے۔ حدیث کے الفاظ میں دور دور تک یہ مفہوم نہیں ہے۔


3️⃣تیسرا جواب یا تیسری وجہ کہ منہج صحابہ ہی کی پیروی کیوں ضروری ہے؟ 

یہ ہے کہ قرآن مجید صحابہ کے سامنے نازل ہوا اور صحابہ ہی اس کے مشاہد ہیں۔ وقتا فوقتا پیش آنے والے واقعات، حادثات، مناسبات سب کچھ صحابہ کے سامنے پیش آتے۔ پھر انہی کے سامنے آیتیں نازل ہوتی۔ اور یہ بات مسلم ہے

کہ کسی بھی قانون کی سب سے اچھی تفسیر وہ کرتا ہے جو قانون کو اپنے سامنے بنتا ہوا دیکھتا ہے۔ بعد میں آنے والا قانون

الفاظ کا سہارا لے کر بسااوقات قانون کی ایسی تفسیر کربیٹھتا ہے جو اس کی منشا اور مقصود کے برعکس ہو۔ لیکن جو آدمی قانون کو بنتے دیکھتا ہے وہ قانون کے الفاظ کی نزاکتیں جانتا ہے، قانون کو صحیح طریقے سے سمجھتا ہے ۔ یہی معاملہ قرآن و سنت کی سمجھ کے سلسلے میں صحابہ کا بھی ہے۔ شریعت اسلامیہ انہی صحابہ کے سامنے اتری اور صحابہ نے قرآن مجید اپنے سامنے اترتے اور سماج پر اسے فٹ ہوتے چسپاں ہوتے نافذ ہوتے دیکھا ہے۔ اس حیثیت سے صحابہ نے قرآن مجید

کو زیادہ سمجھا ہے۔


اور اگر کہیں کسی بات کے سمجھنے میں صحابہ سے غلطی ہوئی تو نبیﷺ نے صحابہ کی اصلاح فرمائی ہے اور کبھی ایسا ہوا کہ کسی اور نے معنی سمجھنے میں غلطی کی تو صحابہ نے

اس کو سمجھایا ہے۔

 سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے؟

⬅️ دلیل نمبر ایک: 

صحیح بخاری اور مسلم کی ایک روایت ہے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر} 

 یعنی اتنا اجالا ہوجائے کہ سفید اور کالے دھاگے میں فرق کرنا ممکن ہوجائے۔ الفاظ کا ظاہری معنی یہی ہے۔ حضرت عدی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اونٹ باندھنے کی رسی (عقال ) ایک سفید اور ایک کالی اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لی تاکہ ان دونوں کے درمیان جب فرق کرسکوں تب فجر کا وقت کب ہوتا ہے متعین کرسکوں۔ کہتے ہیں کہ فجر کا وقت ہوگیا مگر میں ان میں فرق نہ کرسکا۔ معاملہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ لہذا نبی ﷺ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے سفید دھاگا کالے دھاگے سے ممتاز ہو جائے۔ میں نے اس پر عمل کیا مگر معاملہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ نبیﷺ نے فرمایا اے عدی! اس سے مراد حقیقت میں کالا اور سفید دھاگا نہیں ہے، اس سے مراد رات اور دن کی حد ہے کہ رات جب ختم ہو اور دن شروع ہو تو اجالے کی ایک لکیر بنتی ہے اور اندھیرے کی ایک لکیر بنتی ہے۔ 

قریوں میں اس کا مشاہدہ ممکن ہے کہ جیسے ہی اندھیرا ختم ہو سفیدی کی ایک لکیر بنتی نظر آتی ہے۔ اس واقعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صحابہ سے کہیں آیت کے سمجھنے میں غلطی ہوئی تو نبیﷺ نے ان کی سمجھ کو درست کیا۔

 گویا مطلب یہ ہوا کہ یہ سمجھ صرف سمجھ نہیں ہے بلکہ اکثر وبیشتر معاملات میں یہ مصدقہ سمجھ ہے، نبی ﷺ کی جانب سے تصدیق شدہ سمجھ ہے، صحابہ کی سمجھ پر اللہ کے نبیﷺ کی مہر لگی ہوئی ہے۔ یہ بہت بڑی حقیقت اور بڑی ہی اہم بات ہے۔

⬅️ دلیل نمبر دو:

 ایسا ہی ایک اور واقعہ سنن ابی داؤد میں مروی ہے ابو عمران کہتے ہیں کہ ہم قسطنطنیہ کی طرف گئے وہاں عبدالرحمن بن خالد بن ولید ہمارے سپہ سالار تھے۔ ہم جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ دشمن پوری فصیل کو گھیرے ہوئے کھڑا ہے۔ ایسے حالات میں ایک آدمی نے اکیلے آگے بڑھ کر ان پر حملہ کردیا۔ عام طور پر فوج سے ٹکرانے کے لیے پوری فوج یا فوج کی ایک ٹکڑی جاتی ہے۔ جوش اور جذبے میں ایک آدمی گیا اور حملہ کردیا۔ بعض لوگوں نے اس کو ٹوکا اور یہ آیت پڑھی: {ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة } تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو 

کہنے والوں کا مطلب یہ تھا کہ تم اس طرح جا رہے ہو، تمھیں اپنی جان کا خطرہ ہوسکتا ہے، تمھاری ہلاکت ہوسکتی ہے۔ لہذا تم اس اقدام سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہو۔ 

ابوعمران کہتے ہیں کہ حضرت ابوایوب انصاری لشکر کے اندر موجود تھے انھوں نے کہا لوگو ! تم آیت کا معنی غلط بتا رہے ہو یہاں ایک شخص جہاد کرنے کے لیے جہاد کے جذبے سے سرشار دشمن پر حملہ آور ہورہا ہے اور تم اسے اس سے روکنے کے لیے آیت سے استدلال کررہے ہو جبکہ آیت کریمہ جہاد کا حکم دینے کے لیے آئی تھی، کیسے؟ ابوایوب انصاری نے کہا: نبیﷺ کے دور میں جب فتوحات ہوئیں تو ہم نے جہاد کو چھوڑ کر خود کے لیے اطمینان والی زندگی اپنا لینی چاہی کیونکہ اللہ کی طرف سے مال کی فراوانی میسر تھی تو اللہ تعالی نے حکم دیا: {وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلکۃ} اللہ کا مال صرف کھانے پینے کے لیے نہیں ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور جہاد کے لیے بھی نکلا کرو جہاد کو چھوڑو نہیں اس لیے کہ تم جہاد کو چھوڑو گے تو ہلاکت میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ واضح یہ ہوا کہ { ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة } کا بعض لوگوں نے غلط معنی لیا۔ جہاد سے روکنے کے لیے اس آیت کا استعمال کیا تو حضرت ابوایوب انصاری نے انھیں سمجھایا کہ اس کا صحیح معنی کیا ہے۔ منہج صحابہ ہی کی پیروی ضروری قرار دینے کی 

4️⃣چوتھی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کا منہج ہدایت کا معیار ہے۔ اللہ تعالی نے فرمايا: {فإن آمنوا بمثل ما آمنتم به فقد اهتدوا ترجمہ : اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں (بقرۃ: ۱۳۷) ہم ہدایت کا دعوی کر سکتے ہیں مگر ہم دونوں میں سے ہدایت پر کون ہے اس کا فیصلہ صحابہ اور ان کا منہج کرتے ہیں۔ قرآن کے مقابلے اور حدیث کے مقابلے میں صحابہ کے اپنے اقوال دلیل نہیں ہیں، یقینا دلیل نہیں ہیں لیکن جب بات قرآن اور سنت کو سمجھنے کی آتی ہے تو صحابہ کی سمجھ ہماری اور آپ کے سمجھ کے

مقابلے میں مقدم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام خود اس بات کا خیال رکھا کرتے

تھے۔ دیکھتے تھے نئے پیش آمدہ مسائل میں صحابہ میں سے کون کس طرف ہے۔ اگر کسی بات پر صحابہ میں سے کسی کو موافقت کرتے نہ دیکھتے تو اس بات پر عدم اتفاق کو مذکورہ بات کے غلط اور گمراہی ہونے کی دلیل اور ثبوت تسلیم کیا کرتے


ہمیں معلوم ہے خوارج ایک فرقہ ہے گمراہ فرقہ۔ خوارج اپنی سمجھ کے مطابق یہ مانتے تھے کہ حضرت علی اور ان کے ساتھی اور معاویہ اور ان کے ساتھی رضی اللہ عنہم اجمعین تحکیم کے مسئلہ میں غلطی پر ہیں اس لیے انھوں نے ان سبھی صحابہ کو کافر قرار دیا اور ان کے خلاف باقاعدہ لڑائی لڑی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی سے اجازت لے کر خوارج کے پاس پہنچے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے مناقشہ کیا، بحث کی اور جن باتوں کے حوالے سے خوارج کو سمجھانا چاہا ان میں سے ایک حوالہ یہ بھی تھا کہ حضرت ابن عباس نے پوچھا کہ دیکھو نبی کے صحابہ کتنے ہیں؟ یہ بتاؤ تم جس رائے پر قائم ہو، جن اصولوں کی بنیاد پر لڑرہے ہو، تمھارے ان اصولوں میں کون سے صحابی تمهاری تائید میں ہیں، ایک بھی صحابی خوارج کی تائید میں نہیں، ایک صحابی بھی خوارج کے ساتھ نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی صدد الله اللہ عنہما نے کہا کہ نبی اکرمﷺ نے جن صحابہ کو اپنے بعد پیچھے چھوڑا تھا، علم کے باب میں، تقوی کے باب میں، سب میں جن کو اللہ کے نبی نے اپنے شاگرد کی حیثیت چھوڑا تھا، ان میں سے ایک بھی تمھارے ساتھ نہیں ہے تو بھلا بتاؤ تم کیسے ہدایت پر ہو سکتے ہو؟ مؤرخ نے لکھا ہے اس مجلس کے اختتام کے بعد دو ہزار خوارج نے توبہ کی۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ صحابہ واقعی معیار ہدایت ہیں، صحابہ کی سمجھ مقدم ہے اور صحابہ جب ہماری رائے پر نہیں ہیں تو ہماری ہی سوچ میں غلطی ہے۔ گویا دین کی وہ تفسیر جو صحابہ نے کی ہے یہی معیار ہے۔


5️⃣پانچویں وجہ یا پانچواں جواب یہ ہے کہ صحابہ کی پیروی امت میں اتفاق واتحاد کی اساس اور بنیاد ہے۔ 

صحابہ کی پیروی کریں گے تبھی امت کے اندر اتحاد باقی رہے گا اور اگر اختلاف ہوچکا ہے تو اتحاد اسی راستے پیدا ہوگا۔ اگر پہلے سے اتحاد ہے تو اتحاد اسی وقت باقی رہے گا


جب صحابہ کے نقش قدم پر چلیں گے اور اگر اختلاف ہو چکا جیسے ہمارے دور میں

ہے۔ آپ لاکھ کوشش کرلیں مگر اتحاد اسلامی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ہر جماعت اپنے منہج اور عقیدے پرباقی رہ کر آپس میں اگر ایک پلیٹ فارم پر آجائے تو اس کو اتحاد نہیں کہتے۔

 یہ تو سیاسی سمجھوتا ہے، وقتی ضرورت کے تحت یقینا اس کی ضرورت ہے، ہندوستان جیسے ماحول میں آپسی اختلاف رکھتے ہوئے بھی ملنا جلنا ضروری ہے، اس کی اہمیت گھٹانا مقصد نہیں۔ لیکن حقیقی اسلامی اتحاد کسے کہتے

ہیں؟ اتحاد دراصل فکرونظر کا اتحاد ہے، خیالات کی یکسوئی کا نام ہے۔ فقہی مسائل میں اختلاف اپنی جگہ ہے، عقائد ایک ہونا چاہیے، منہج ایک ہونا چاہیے، ایمان اور عقیدے کے بنیادی مسائل میں پوری طرح اتفاق ہونا چاہیے۔ اور یہ اتحاد اگر اس وقت نہیں ہے تو یہ کیسے پیدا ہوگا؟ وہ ایسے ہی پیدا ہوگا کہ صحابہ کی سمجھ کو معیار بنا کر ہم سب صحابہ کی سمجھ کی طرف لوٹیں۔ اسی راستے اتحاد ہوگا۔ اور اگر صحابہ کی سمجھ کو مقدم نہیں رکھیں گے اختلاف باقی رہے گا۔ یہ بات اللہ تبارک وتعالی نے اسی آیت کی تکمیل کرتے ہوئے بیان فرمائی ہے: {فإن آمنوا بمثل ما آمنتم به فقد اهتدوا وإن تولوا فإنما هم في شقاق فسيكفيكهم الله وهو السميع العليم} اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں۔ اللہ تعالی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔ (بقرۃ :137) آیت کریمہ اپنے پیغام میں بہت ہی واضح ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ صحابہ کے طریقے پر آؤگے تو اتحاد ہوگا۔ آج امت مسلمہ کی تنظیمیں تحریکیں اتحاد امت کے لیے کوشش کر رہی ہیں جتنی ان سب کو یہی پیغام ہے کہ تمھاری کوششیں قابل قدر يقينا ہیں لیکن سب کو یہ پیغام ہے کہ یاد رکھیں صحابہ کے منہج کو اپنائیں گے۔ ہر معاملہ میں، دین کے ہر مسئلہ میں صحابہ کے اتحاد کا خواب ہم دیکھ سکتے ہیں، کوشش صرف کرسکتے ہیں منہج کو اپنائیں گے تب ہی جاکر اسلامی اتحاد قائم ہوگا۔ ورنہ مگر ان کوششوں کا پھل ہم کو اپنی زندگی میں دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔

 

6️⃣صحابہ کی سمجھ یا صحابہ کے منہج ہی کی پیروی کیوں ضروری ہے؟ اسی کی اتباع کیوں ضروری ہے؟ اس کی وجوہات میں سے چھٹی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے جس وقت دین کو سمجھا تھا اس وقت ان کی زبان خالص عربی تھی اور کسی بھی قسم کی خارجی مداخلت سے پاک تھی، وہ بھی خالص عرب تھے دوسری کسی زبان کا اثر عربی زبان پر نہیں تھا۔ ان کی زبان اور قرآن وسنت کی زبان ایک تھی، ابھی زبان اس قدر معیار سے گری نہیں تھی جس کی وجہ سے فہم و استنباط میں زبان کے فرق کی وجہ سے اونچ نیچ ہوجائے۔ جبکہ بعد کے ادوار میں خود عربی داں بھی خارجی مؤثرات کی وجہ سے اپنی خود کی زبان کا معیار باقی نہ رکھ سکے۔ نتیجہ میں ان کی اپنی زبان اور قرآن وسنت کے اسلوب وبیان میں آنے والا فرق خود اپنے آپ میں اس بات کی دلیل ہے کہ بعد والے پہلے والوں کی برابری نہیں کرسکتے۔ یہ عربی دانوں کی بات ہے، رہے وہ لوگ جن کا عربی زبان سے بھی کوئی رشتہ نہ ہو یا برائے نام جانتے ہوں وہ کیسے قرآن فہمی اور سنت کے ادراک کے دعوے میں ان صحابہ کی برابری کرسکتے ہیں

 ےچہ نسبت خاک را باعالم پاک؟ 


7️⃣اس سلسلہ کی ساتویں وجہ یہ ہے کہ صحابہ کا زمانہ بدعتوں کے وجود سے پہلے کا زمانہ تھا۔ صحابہ کے زمانے میں بدعتی نہیں تھے، کسی قسم کی گمراہی نہیں تھی۔ لہذا ان کی اپنی سوچ بھی بالکل صاف اور شفاف تھی، بدعت یا اہل بدعت کی صحبت سے آلودہ معاشرہ نے ان کے قلوب واذہان کو متأثر نہیں کیا تھا جس طر ح بعد کے لوگوں کے ساتھ ہوا۔ آدمی جس ماحول میں پروان چڑھتا ہے، اس کے دماغ کی جو ترتیب ہوتی ہے، اس کا ذہن جو بنتا ہے وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے اور آدمی جب اپنے اسی دماغ پر زور ڈالتا ہے اور اس پر اعتماد کرتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے تو اپنے ماحول کے اثرات لئے آزاد ہو نہیں سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ صحابہ کا جو زمانہ تھا وہ ہر قسم کی بدعات کے غلبہ سے پاک تھا، ہر قسم کی دخل اندازیوں سے پاک تھا اس لیے ان کی سمجھ میں خلل پیدا ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کے مقابلے میں بعد کے زمانے میں جو دین کی تفسیریں ہوئیں ان سب کے اندر باہر کے بہت سے لوگوں کے اثرات تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ بہت سے دشمنان اسلام نے مسلمان بن کر اسلام کو نقصان پہنچایا، بہت سے لوگوں نے بدعتوں کو لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے دین میں داخل کرلیا اور اس ماحول میں جینے والے اکثر لوگ ان ساری چیزوں کے اثر سے خود کو بچا نہ سکے۔ اس لیے آج اگر تفسیر کی بات ہوگی یا اگر تفہیم کی بات ہوگی یا آج اگر کسی کی سمجھ کی بات ہوگی تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ سمجھ صاف وشفاف ہوگی، کسی سے متاثر نہیں ہوگی۔ صحابہ کی سمجھ کسی اور سے متاثر نہیں، پاک ہے، صاف و شفاف ہے، اس لیے بھی صحابہ کے منہج کی پیروی ضروری ہے۔


8️⃣ صحابہ کے منہج ہی کی پیروی کی آٹھویں وجہ یہ یہ افراط وتفریط سے پاک اعتدال پر مبنی منہج ہے۔ یہی حقیقی وسطیت ہے: {وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس} ہم نے اسی طرح تمھیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔ (البقرۃ: ۱۴۳) صحابہ کے منہج ہی میں آپ کو یہ چیز ملے گی۔ دین کے ہر مسئلہ میں دو طرح کی غلطیاں ہوئیں یا تو اس معاملے میں غلو ہوا یا تو اس معاملے میں لوگوں نے کمی کی۔ لیکن صحابہ کا منہج ہمیشہ درمیانی رہا وسطیت صحابہ کے منہج میں رہی۔ مثالیں کئی ایک ہیں۔


نبی کے گھرانے آل بیت رسول سے خصوصی محبت رکھنا یہ اللہ کے نبی ﷺ کا حکم ہے، یہ ایمان کی علامت ہے۔ لیکن اس باب میں دو فرقوں نے غلطی کی۔ ایک طرف شیعوں کا مسئلہ ہے انھوں نے آل بیت سے محبت کے نام پر غلو کیا، حد سے آگے نکل گئے اور دوسری طرف ناصبی ہیں، نواصب نے آل بیت کے ساتھ دشمنی کی۔ ان دونوں کے درمیان سلف صالحین کا، صحابہ کا، سلفیت کا اصول یہ ہے کہ صحابہ و آل بیت ہر دو سے محبت کی جانی چاہیے ویسے ہی جیسے اللہ کے نبی ﷺ نے سکھائی ہے۔ نہ شیعہ کی طرح آل بیت سے محبت میں غلو کیا جائے نہ نواصب کی طرح آل بیت سے بے اعتنائی اختیار کی جائے۔ 

دین کے ہر مسئلہ میں یہی افراط وتفریط در آیا۔ اسی افراط وتفریط کی ایک اور مثال تقدیر پر ایمان کا مسئلہ بھی ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ تبارک وتعالی نے تقدیر لکھ دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب مجبور ہیں کوئی اختیار نہیں۔ یہ ان کی غلطی اور تقدیر کے مسئلہ میں غلو اور افراط تھا۔ دوسری طرف کچھ لوگوں نے کہا کہ نہیں، انسان صاحب اختیار ہے اور صاحب اختیار ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کو پہلے سے کچھ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ بندہ کیا کرنے والا ہے۔ بندہ کرتا ہے تب جا کر اللہ تبارک وتعالی کو معلوم ہوتا ہے۔ یہ تفریط کی راہ تھی۔ یہ دو کنارے تھے، کچھ لوگوں نے تقدیر کا انکار کیا اور کچھ لوگوں نے تقدیر کو ثابت کیا تو ایسے ثابت کیا کہ انسان کا اختیار ہی چھین لیا۔ اہل سنت ان دونوں کے درمیان ہیں۔

 ایک اور مثال حکمرانوں کے منکرات کی لے لیں۔ یہاں بھی دو قسم کے لوگ آئے، خوارج نے انکار منکر یعنی برائی سے روکنے کے نام پر مسلمان حکمران کے خلاف بغاوت کو دین کا نام دیا اور ان کے مقابلے میں کچھ لوگ وہ آئے جنھوں نے حکمرانوں کے ہر معاملے کو شریعت کا مسئلہ بتانے اور اس کے لیے جواز ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ یہ دونوں طرف غلطی پر تھے۔ شریعت اسلامیہ کی نظر میں اس معاملے میں صحابہ کا منہج تھا صحابہ نے یہ حد متعین کی کہ خوارج کا جو طریقہ صحیح ہے وہ بھی غلط ہے اور جو لوگ حکمرانوں کے تلوے چاٹنے کا مزاج رکھتے ہیں، ہر حال میں ان کی بات کو دین کی بات ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں وہ بھی غلط ہے۔ درمیان میں منہج سلف وصحابہ یہ ہے کہ ہر ایک کی بات کی طرح حکمران کی بات کو بھی شریعت کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ حکمران کا جو حکم یا ہدایت اور فیصلہ شریعت کے مطابق ہو وہ سر اور آنکھوں پر ہوگا۔ اس لیے کہ یہ اس کا نہیں اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے اور اگر حکمران شریعت سے اختلاف حكم دیتا ہے تو ہم اس کی وہ بات نہیں مانیں گے، بقیہ معاملات میں اس کی اطاعت کریں گے۔ مختصر یہ کہ ہر مسئلہ میں صحابہ کی سمجھ درمیانی سمجھ ہے نہ تو غلو ہے نہ تو اس میں کسی قسم کی کمی ہے۔ صحابہ کی سمجھ افراط وتفریط سے پاک، وسطیت، اعتدال اور میانہ روی پر مبنی ہے۔


9️⃣منہج صحابہ ہی کی پیروی کی نویں وجہ یہ ہے کہ وہ دین کے سب سے بڑے خیرخواہ تھے۔ صحابہ کے زمانے میں بعد کے زمانے کی طرح نہ فرقے تھے نہ نسبتیں تھیں اور نہ ہی کسی اور قسم کی وابستگیاں، وہ اللہ ورسول کے ساتھ مخلص تھے، قرآن وسنت کے ساتھ ان کا رشتہ مضبوط ومستحکم تھا۔ بعد کے لوگوں میں یہ ہوا کہ ان کے اندر طرح طرح کی نسبتیں اور مختلف قسم کی عصبیتیں وجود میں آگئیں اور ان سے وابستہ افراد چاہ کر بھی ان نسبتوں سے وابستگی کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ وہ مخلص ہوکر بھی اکثر اپنی عصبیتوں کے اثرات سے آزاد نہ ہوسکے۔ رہے وہ جن کی نظر میں ان کی یہ وابستگیاں ہی سب کچھ بن کر رہ گئیں وہ دین کے خیر خواہ ہونے سے زیادہ اپنے محدود دائرہ کے خیرخواہ ہی بن سکے۔ حد یہ ہے کہ ایسے بعض لوگوں نے اپنی تائید میں حدیثیں تک گڑھیں اور دین کے نام پر خود کی فکر کو رواج دینے میں لگے رہے۔ صحابہ ان سب سے اوپر اٹھ کر اللہ ورسول کے ساتھ مخلص رہے اور قرآن وسنت کے اور اس معاملہ میں امت کے سب سے بڑے خیرخواہ رہے۔


1️⃣0️⃣ منہج سلف ہی کو اپنانے کی دسویں وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان صحابہ کے باطن کی پاکیزگی کی گواہی دی ہے۔ اور یہ ایک ایسی ضمانت ہے جو کسی اور سے متعلق نہیں ملتی، باطن کی پاکیزگی بدعات اور سیئات دونوں ہی کے غلط اثرات سے محفوظ ہونے کا ایک ایسا حوالہ ہے کہ جو فکر ونظر کی سلامتی اور سمجھ بوجھ کی راستی کی ضمانت بن

جاتا ہے۔ یہ شہادت قرآن وسنت میں مکرر وارد ہے، ملاحظہ کریں: (لقد رضي

الله عن المؤمنين إذيبايعونك تحت الشجرة فعلم ما في

قلوبهم...) یقینا اللہ تعالی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو تھااسے اس نے معلوم کرليا .. (الفتح : ۱۸) 

مزید برآں قرآن میں مکرر یہ گواہی {رضي الله عنہم ورضوا عنه} اللہ ان سے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے،


 اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کا ظاہر وباطن اللہ کی نظر میں اس قدر پاک تھا کہ رب ہمیشہ کے لیے ان سے راضی ہوگیا۔ اس پہلو کی مزید وضاحت اس حوالے سے بھی ہوتی ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو محمد ﷺ کے دل کو سب سے اچھا دل پایا، اللہ نے آپ کو چن لیا اور اپنا پیغمبر بنالیا۔ اللہ نے محمدﷺ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو محمد ﷺکے صحابہ کے دل کو بندوں کے دلوں میں سب سے اچھا دل پایا۔ اللہ نے ان کو اپنے نبی کے وزراء کی حیثیت سے 

چن لیا (مسند أحمد : ۳۶۰۰)


مختصر یہ کہ ان کے دل دیکھ کر نبی کی صحبت کے لیے ان کا انتخاب ہوا ہے جس طرح محمدﷺ کا دل دیکھ کر نبوت کے لیے آپ ﷺ کا انتخاب ہوا ہے۔


1️⃣1️⃣منہج سلف ہی کی اتباع کے لازمی ہونے کی گیارہویں وجہ یہ ہے


کہ ان صحابہ نے جاہلیت اور اسلام دونوں کو قریب سے دیکھا ہے۔


بقول عربی شاعر متنبی کے کہ(وبضدھا تتبين الأشياء) آدمی جب کسی چیز کی حقیقت کے ساتھ جب اس کی ضد اور مخالف کو بھی پہچانتا ہو تو اس کی پہچان اور معرفت مکمل ہوتی ہے۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ کا یہ اثر ذکر کیا ہے: (إنما تنقض عرى الإسلام عروة عروة إذا نشأ في الإسلام من لايعرف الجاهلية) اسلام ایک ایک کڑے کی طرح بکھرتا جائے گا جب اسلام میں ایسے لوگ پروان چڑھنے لگیں جو جاہلیت کو نہ پہچانتے ہوں۔ (دیکھیں : درء تعارض العقل والنقل : ۵-۲۵۹) علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پھر اس کی بڑی زبردست تعلیل وتوجیہ کی ہے جو اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ صحابہ کو یہ بھی امتیاز حاصل ہے کہ وہ جاہلیت اور اسلام دونوں دریاؤں کے شناور تھے لہذا اسلام کوپہچان کر اپناتے تھے اور جاہلیت کو پہچان کر اس سے بچتے بھی تھے اور ایسا امتیاز بعد کے لوگوں کو کم ہی حاصل ہوا یا ہوگا۔


1️⃣2️⃣بارہویں اور اس سلسلہ کی آخری وجہ جو منہج سلف ہی کی پیروی کے ضروری ہونے کو واضح کرتی ہے یہ ہے کہ اگر آپ سلف صالحین کے منہج پر چلیں گے اور دین کو ان کے طریقے پر سمجھیں گے تو یہ دین آپ کے لیے بہت آسان ہو جائے گا۔ اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا دونوں ہی آسان ہوں گے۔ اس کے مقابلے میں کسی اور منہج یا طریقہ کو آپ اپنائیں گے، کسی اور طریقے پر چلیں گے تو ہوگا یہ کہ یہ دین آپ کے لیے بہت مشکل ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں صرف ایک حوالہ نقل کرتا ہوں۔

 امام رازی تاریخ اسلام کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ آپ ان کو علم کا سمندر کہیے بالخصوص منطق، فلسفہ اور تصوف وغیرہ امامت کے درجہ پر تصور کیے جاتے ہیں۔ رازی نے بڑی عمر میں 

فلسفہ اور منطق کی خدمت اور ان کے سہارے دین کو سمجھنے اور سمجھانے میں لگادی۔ لیکن اپنی اس کوشش میں وہ کس حد تک کامیاب رہے، صحابہ کے فطری اور سادہ طریقہ فہم کے مقابلے منطق اور فلسفہ نے انھیں کیا دیا اس کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: میں نے علم کلام کے جتنے طریقے تھے سب کا جائزہ لے لیا اور فلسفے کے جتنے منہج تھے ان سب پر غور کر لیا، بالآخر جس حقیقت کو میں نے پایا ہے وہ یہ ہے کہ یہ نہ کسی (دین وایمان کے) بیمار کو شفا دیتے ہیں اور نہ کسی (حقیقی علم کے) پیاسے کی پیاس مٹاتے ہیں۔ ان سب کے مقابلے میں میں نے یہ دیکھا کہ حقیقت سے قریب اور سب سے آسان اگر کوئی طریقہ ہے تو وہ قرآن مجید کا طریقہ ہے۔

( شرح الطحاویہ لابن ابی العز :178:1)


صحابہ کا یہی طریقہ تھا صحابہ نے خواہ مخواہ کی بحثوں میں الجھنے کے بجائے فطری اور سادہ دین کو اپنایا جو ایک عام آدمی سے لے کر پڑھے لکھے بڑے دماغ سب کو یکساں طور پر مخاطب کرتا ہے اور یکساں طور پر سب کے ایمان اور اطمینان کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔


📌خلاصہ : دین کے مسائل میں اپنے آپ کو بڑا علامہ سمجھنے یا اپنے امام کو، اپنے مقتدی ورہنما کو بہت بڑا عالم علامہ سمجھنے سے بہتر یہ ہے بلکہ واجب یہ ہے کہ ہم اپنے اوپر اور سب پر ان کو مقدم رکھیں جن کی امامت سب کے نزدیک مسلم ہے۔ سبھی صحابہ کو مانتے ہیں لیکن صحابہ کو ماننا صرف محبت کے لیے نہیں، صرف عقیدت کے لیے نہیں بلکہ صحابہ کو حقیقت میں ماننا یہ ہے کہ ہم ان کی فہم اور ان کی سمجھ کو دین کے سبھی معاملات بنیاد بناکر چلنا سیکھیں۔ صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے آثار اہل علم نے نقل کیے ہیں، تقریبا سبھی صحیح کتابوں میں بالخصوص مصنف ابن ابی شیبہ یا مصنف عبدالرزاق ان دو کتابوں میں صحابہ کے آثار مذکور ہیں۔ حدیثوں کے معانی کو سمجھنے کے لیے، آیتوں کا معنی متعین کرنے کے لیے، امت کے اندر جو مسائل اختلافی ہیں ان کو

سمجھنے کے لیے آپ صحابہ کی سمجھ کو معیار بنا لیں آپ کا دین آپ کے لیے آسان ہوجائے گا اور حقیقت کا راستہ آپ کے سامنے کھول دیا جائے گا۔


(یہ مضمون دراصل شیخ حافظ عبدالحسیب عمری مدنی کے ایک خطاب کا حصہ ہے جو انھوں نے ۲۰۱۳ء میں ممبئی میں کیا

تھا)


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 27 اپریل، 2022

मस्जिद को इस्लाम में अल्लाह का घर माना जाता है | रकीबुल इस्लाम सलाफी

 खूबसूरत मस्जिद का मंजर। माशा अल्लाह ☺️



✅ #मस्जिद वह घर जहां नमाज पढ़ी जाती है, उपासना (इबादत) या प्रार्थना की जाती है।

✅ मस्जिद का शाब्दिक अर्थ है 'प्रणाम करने की जगह'।

✅ दिन व रात में पांच वक्त की नमाज पढ़ी जाती है। (फज्र, जौहर, असर, मगरिब और ईशा) और हर नमाज से पहले पांच बार अजान भी दी जाती है। ताकि लोग अजान की आवाज सुनकर मस्जिद आकर निर्धारित समय पर नमाज पढ़ सके।

✅ #अजान 7 वाक्यों में शामिल है। जिसमें से 2 वाक्य:

    1️⃣हय्या अलस सलाह : आओ नमाज की तरफ

    2️⃣हय्या अलल फलाह : आऔ कामयाबी की तरफ

✅ मस्जिद को इस्लाम में अल्लाह का घर माना जाता है। इस पर किसी खास इंसान कि मिल्कियत नहीं होती है।

✅ विश्व की सबसे बड़ी मस्जिद 'मस्जिद अल-हरम' सऊदी अरब के मक्का शहर में स्थित है। जिसको 'काबा' भी कहा जाता है। 🕋

✅ एशिया की सबसे बड़ी मस्जिद 'ताज-उल-मस्जिद' मध्य प्रदेश के भोपाल में है।

✅ भारत की सबसे पहली मस्जिद 'चेरामन जुमा' केरल के त्रिशूर में स्थित है।


रकीबुल इस्लाम सलाफी

कुर्ला, मुंबई, भारत 🇮🇳

بدھ، 4 اگست، 2021

LOVE JIHAD | Article by Rakibul Islam Salafi

 


السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

کتبہ : رقیب الاسلام بابو

 

طوفان تو لاتے ہی تباہکاریاں ہیں ، آندھی طوفانوں سے جب گھر منہدم ہو جائیں ، بغیر سائیبان کے جب خاندان سڑک پر آجاتا ہے تو عورتوں کے ستر و حجاب خطرے میں پڑ جاتے ہیں ۔ میں ایک انڈین مسلمان ہوں ، میرا وطن میری سکونت کا بہترین خطہ ہے ، مجھے میرا وطن دل و جاں سے عزیز ہے ۔ یہ وطن ، جسے میں دل کے ایک نرم گوشے میں جگہ دیتا ہوں ، میں یہ نہیں دیکھتا کہ میرے وطن نے مجھ سے کیا چھینا اور مجھے کیا دیا ، میں اس لیے اپنے وطن سے محبت کرتا ہوں کیونکہ اس کی آغوش میں ، میں پل بڑھ کر جوان ہوا ، میرے عقل وشعور اور کردار کی تعمیر اسی دھرتی پر ہوئی اور اس کی فضا نے باذن اللہ واحدالاحد مجھے تنفس کی روانی دی ۔ پس میں اس سے محبت کرتا ہوں اور یہ میرا قاعدہ ہے کہ میں جس چیز سے محبت کرتا ہوں اس سے وابستہ ہر چیز سے محبت کرتا ہوں ، اس لیے مجھے اس میں بسنے والے تمام باسیوں سے انسانیت کی راہ سے محبت ہے ۔ مجھے اس ملک میں اٹھنے والے طوفان بہت تکلیف پہنچاتے ہیں ، پھر چاہے وہ طوفان میرے ہم مذہبوں کو برباد کریں یا دوسرے مذہب کے لوگ تباہی سے دو چار ہوں ہر دو صورتوں میں میرا دل غم و الم کے سمندر میں ڈوبنے لگتا ہے ۔

میرے ملک میں طوفان تو آتے جاتے ہی رہتے ہیں ، لیکن جس طوفان کے بارے میں ، میں بیان کرنے جا رہا ہوں یقین مانیے وہ طوفان کسی فکر سلیم کے حامل مسلمان کو نرم و گداز ریشمی بستر پر بھی سکون نہیں دے سکتا ، اور یہی حال میرا ہے ۔

ایک طوفانِ بدتمیزی ( LOVE JIHAD ) کے نام سے میرے وطن میں امڈ پڑا ہے ۔ یہ لٙو جہاد کیا ہے کیا نہیں ہے بس اتنا جان لیجیے کہ میرے نبیﷺ کی شریعت پر ایک ڈاکہ ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شریعت محمدیﷺ پر ڈاکہ ڈالنے کی کسی کو کیسے جرآت ہوگئی ، تو قارئین راہزن جرآت اسی گھر کو لوٹنے کی کرتے ہیں ، جس کے در و دیوار کمزور ہوں ، دروازہ کھلا چھوڑ دیا جائے اور گھر کے مکین انتہا کے لا پرواہ ہوں ۔

ہندو لڑکوں کا مسلمان لڑکیوں سے شادیاں کروانے کا گھناونا منصوبہ نہایت سرعت سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ ہر روز ( LOVE JIHAD ) جیسے چور راستے سے مسلمانوں کی صفوں میں گھسنے والے بھیڑیے مسلمان مائوں بہنوں کو چیر پھاڑ کر رہے ہیں ، کیا وجہ ہے کہ مسلمان عورتیں ان بھیڑیوں کی ہوس کا نشانہ بن رہی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اپنی خواہشات نفس کو اِلہ بنالیا اور اتباعِ وحی اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ہمارا عمل ناپید ہوتا جارہا ہے ۔ والدین آج خود بھی سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں اور اپنی بچیوں کو بھی آزاد چھوڑا ہوا ہے ۔ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں قرآن پکڑانے کے بجائے انڈرائیڈ تھمائے جا رہے ہیں ، گھر کے حاکم مرد نے دیوثیت کا لبادہ پہن لیا ہے ، جو جتنا مغرب زدہ ہے وہ اتنا ہی معاشرے کا معزز ہے ، ہر نوجوان کا حلیہ بالی وڈ کا عکس پیش کر رہا ہے ، مسلم لڑکیاں نہیں جانتیں کہ فاطمہ بنت محمد کون تھیں کیسی زندگی گزارتی تھیں ، کس طرح ستر و حجاب کے ساتھ رہتی تھیں ، لیکن چھوٹی عمر ہو یا بڑی ، ہر لڑکی جانتی ہے کہ ارواشی راو ، ڈیپیکا یا پریانکا چوپڑا کیسے کپڑے پہنتی ہیں ، ایکٹریس اور ایکٹرز جب نوجوانوں کے رول ماڈل بن جائیں اور والدین بچوں سے بے نیاز ہو جائیں ، قرآن مقفل پڑے رہیں ، غیر مسلموں کے تہواروں میں اسلام اور غیر اسلام خلط ملط ہو جائے ، والدین اپنے فرائض منصبی بھول جائیں اور جہاں اسلام کی دھجیاں اڑائی جائیں تو وہاں love jihad جیسی وبا بڑی آسانی سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ، پھر عورتوں کے حمل شیطانوں کے نطفوں سے ٹہرتے ہیں ، غیر مسلم ہوس پرستوں کے بستر مسلمان بیٹیاں گرم کرتی ہیں ، جس اسلام نے عورت کو سر تاپیر ڈھانپ دیا اسی اسلام کی بیٹیاں اپنے ننگے جسموں کی تصاویر اپنے ہاتھ سے اسلام دشمنوں کو بھیجتی ہیں ۔ بالی وڈ پر لو اسٹوریاں دیکھ دیکھ کر مسلم لڑکیاں موبائلوں پر خوشی خوشی بھیڑیوں کو اپنا آپ سونپ دیتی ہیں ۔

معاف کیجیے گا قارئین !! میں اس سارے گھناونے کھیل کا حصہ بننے والی مسلمان لڑکیوں کے والدین اور سرپرستوں کو مئورد الزام ٹہیراتا ہوں ۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی ؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ آج لڑکی کے لیے سب سے خطرناک چیز موبائل کے ساتھ تنہا رہنا ہے ۔ بچیوں کے بگاڑ کا سب سے بڑا سبب انہیں تنہا چھوڑنا ہے اور ان کی سرگرمیوں سے سرف نظر کرنا ہے ، اور یہ سب عام ہے ، پھر مصائب و آلام کا عام ہونا اچھنبا نہیں ہے ، (AS YOU SOW SO SHALL YOU REAP) جو آپ آج بوئیں گے وہی کل کاٹیں گے ۔

کل جیسی پرورش آپ نے اپنے بچوں کی کی تھی ، آج بے راہ روی اور فحاشی کی طرف قدم ڈالنے کی صورت میں آپ کو کڑوا پھل چکھنا پڑے گا ۔ دین کو ٹکڑوں میں بانٹنے والے آج کمزور ہیں ، اگر دین کو مستحکم کیا ہوتا اور آپس میں اتحاد سے رہنا بسنا ہوتا تو دشمن کی مجال نہیں تھی کہ وہ ہم پر داو پیچ کھیلتا اور ہمیں عاجز کر دیتا ، اور یہ مقولہ تو مشہور ہے کہ :

لا يجز القوم إذا تعاونوا

جب قوم میں باہم تعاون ہو تو وہ عاجز نہیں‌رہتی

 

اللھم انصر الاسلام والمسلمین

جـــــزاک اللّــہ خیراً کـــثیراَ وَ اَحــــسن

الجــزاء فی الـــدنیاوالآخرۃ


Download in PDF

اتوار، 13 جون، 2021

ذریعۂ معاش اور ہمارے اکابر

ذریعۂ معاش اور ہمارے اکابر


آج اگر کوئی عالم دین کاروبار کا سوچتا ہے تو کوئی اسے دین کے منافی قرار دیتا ہے “ اگر یہی کرنا تھا تو مدارس میں کیوں رہے ؟؟ “ اور ہمت کرکے کوئی پہلا قدم اٹھا بھی لے تو ہم عصر یہ طعنہ دے کر خون جلاتے ہیں “ تدریس کے لئے قبولیت شرط ہے قابلیت نہیں ، اللہ نے قبول نہیں کیا انتہائی افسوس!!! “

اگر تاریخ اسلام پر نگاہ ڈالی جائے تو کاروبار کی شروعات ہی اسلام کی شروعات نظر آتی ہے ۔
حضرت پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں پال کر فروخت کیں ،
حضرت ابوبکر ؓ  نے کپڑا ،
 حضرت عمر ؓ نے اونٹ ،
 حضرت عثمان ؓ نے چمڑا ،
 حضرت علی ؓ نے خَود اور زِرْہیں فروخت کرکے اپنے گھر کے کچن کو سہارا دیا ۔۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ نے کھجوروں سے ،
 حضرت ابو عبیدہؓ نے پتھروں سے ،
 حضرت سعد ؓ نے لکڑی کے برادے سے ،
حضرت امیر معاویہ ؓ نے اون سے ، حضرت سلمان فارسی ؓ نے کھجور کی چھال سے ،
"حضرت مقداد ؓ " نے مشکیزوں سے  اور "حضرت بلال ؓ " نے جنگل کی لکڑیوں سے اپنے گھر کی کفالت کا فریضہ سرانجام دیا۔۔
"سعید بن مُسَیِّبِ ؒ " اگرچہ آپ بڑے عابد و زاہد اور دنیا سے کنارہ کش تھے۔ اس قدر ترک دنیا نا پسند کرتے تھے جس سے انسان اپنی عزت قائم نہ رکھ سکے اور دوسروں کے ساتھ سلوک نہ کر سکے اس لیے کسبِ معاش کے تجارت کا پاک شغل اختیار کیا تھا۔ روغن زیتون وغیرہ کی تجارت کرتے تھے۔[11]

"امام غزالی" کتابت کرتے ،
 "اسحاق بن راہویہ" برتن بنا تے ،
"امام بخاری" علیہ رحمۃ اللہ البارِی کاشتکار اور تاجر تھے اور منقول ہے کہ والد کی وِراثَت میں آپ کو بہت سا مال ملا جسے مُضارَبت ([1]) کے طور پر دیا کرتے تھے۔(مصابیح الجامع للدمامینی، 5/49، فتح الباری، 1/454)
ا"مام مسلم" خوشبو بیچتے ،
 "امام نسائی" بکریوں کے بچے فروخت کرتے ،
 "ابن ماجہ" رکاب اور لگامیں مہیا فرماتے رہے ۔۔

امام حضرت "سالم بن عبداللہ" بازار میں لین دین کیا کرتے تھے.
 حضرت "ابو صالح سمان" روغن زیتون کا کام کیا کرتے تھے ،
 حضرت امام یونس، حضرت ابن عبید داؤد، حضرت ابن ابی ہند ،حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت وثیمہ ریشمی پارچہ کاکام کرتے رہے۔

حافظ الحدیث "غندر بصری" نے چادروں کا ،
 امام القراء حمزہ نے زیتون، پنیر اور اخروٹ کا ،
 حضرت "امام قدوری" نے مٹی کے برتنوں کا ،
حضرت امام بخاری کے استاد "حسن بن ربیع" نے کوفی بوریوں کاکاروبار سنبھالا ۔

حضرت امام "احمد ابن خالد قرطبی" نے جبہ فروش کی ،
حضرت "امام ابن جوزی" نے تانبا بیچا ،
 حافظ الحدیث "ابن رومیہ" نے دوائیاں ،
حضرت "ابو یعقوب لغوی" نے  چوبی لٹھا ،
 حضرت "محمد ابن سلیمان" نے گھوڑے اور مشہور ومعروف بزرگ سری سقطی نے ٹین ڈبے بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کیا۔

محترم علماء کرام !
مدرسہ میں پڑھانا ، مسجد میں امامت کروانا یا تصنیف و تالیف میں مشغول ہونا اچھی بات ہے لیکن ہمارے اکابرین نے انہی کاموں کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کیا ہے تاریخ اٹھا کر دیکھئے ۔۔ دور نبوت سے لے کر دور صحابہ تک ، تابعین سے آئمہ کرام اور مجتہدین تک سبھی لوگ کاروبار سے وابستہ رہے ۔۔

لیکن افسوس ہم ذریعہ معاش کے لئے کچھ سوچنا بھی توکل کے برعکس سمجھتے ہیں ۔۔

Haqeeqi Kaamiyabi | حقیقی کامیابی | اولاد کی تربیت

حقیقی کامیابی  اولاد کا ڈاکٹر انجینئر اور اعلی تعلیم یافتہ ہونا کامیابی نہیں ؛ بلکہ اولاد کا نیک ہونا سعادت مندی اور بڑی کامیابی ہے۔۔۔ نیک ا...