جمعہ، 29 جنوری، 2021

Divorcee & Widow Woman in Islam | Rakibul Islam Salafi


A divorced woman or widow never had any issues getting married in the time of the companions.
In fact, she would have a hard time choosing which proposal to accept since there were so many great men asking for her.
She was never made to feel like she was a burden on her family/society, nor was she told that she'd have to marry anyone that'd be willing to propose to her.

Some Muslim cultures are backwards, Islam is not.”

— Shaykh Omar Suleiman

Rakibul Islam Salafi
Kurla, Mumbai, India

اتوار، 3 جنوری، 2021

صدیوں سے صوبہ آسام میں سرکاری طور پر چلے آرہے مدرسوں کی بندش سے متعلق ایک مختصر سی رپورٹ:

صدیوں سے صوبہ آسام میں سرکاری طور پر چلے آرہے مدرسوں کی بندش سے متعلق ایک مختصر سی رپورٹ:

آسام میں 1935ء سے سینئر مدرسہ ، ٹائٹل مدرسہ اور عربی کالج کے نام سےچند دینی و مذہبی تعلیمی ادارے چلےآ رہے تھے ، لیکن بدقسمتی سے آسام کے موجودہ وزیرتعلیم ھمنت بشوا شرما نے 30 – 12-2020 ء کو حکومت آسام کے سرمائی اجلاس کے دوران مخالف پارٹیوں کے شدید احتجاج کے باوجود ان مدرسوں کی بندش کے لیے ایک نئ بل (Bill)تیار کیا ۔  

زیادہ اثباتی تعداد رہنے کیوجہ سے بل(Bill) پاس بھی ہوچکا ہے۔

 مذکورہ بل(Bill) کے مطابق آئندہ کوئی بھی شخص آسام میں اس طرح کے دینی مدرسے قائم نہیں کر سکے گا۔

 یکم اپریل 2021 سے موجودہ مدارس اسلامیہ کو عام اسکولوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔

 اور ان میں حکومت غیر مسلموں کو اپنے طور پر نوکریاں فراہم کرےگی۔ جو خود اس سے قبل مدرسے کےمینجمنٹ کمیٹی کرتی آرہی تھی۔

 کیونکہ ان میں سے بیشتر مدرسے مسلم ملکیت والی اور وقف کی ہوئ اراضی پر قائم کیے گئے تھے۔

 اس بل کے مطابق، سرکاری رقم خرچ کر کے دینی تعلیم فراہم نہیں کی جائے گی۔

مگر آسام میں پرائویٹ یعنی قومی مدرسے گرچہ اپنی جگہ پر برقرار رہیں گے پھر بھی اس بل میں یہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ ان مدرسے سے متعلق قوانین نافذ کرنے کے لئے جلد ہی نئی دفعات تیار کۓجائینگے۔

 بل کے مطابق سرکاری مدارس میں کام کرنے والے اساتذہ و ملازموں کی تنخواہوں میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی ، حالانکہ یہ بالکل یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں اس ضمن میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

میں ذاتی طور پر اس بل کی سخت مخالفت کرتا ہوں۔ 

وجوہات:

1. جہاں صرف مسلمان ہی فائدہ اٹھاتے تھے اب ان مراعات سے محروم رہیں گے

2. دینی تعلیم (قرآن و حدیث) کو چھوڑ دیا جا ئیگا۔

3. مسلم لڑکے اور لڑکیاں غیر اسلامی ثقافت سے متاثر ہوں گے۔

4. قومی مدرسے بھی متاثر ہوسکتا ہیں۔

5 .دستور ہند کی جانب سے دیۓ ہوۓ حقوق کی پامالی کا خدشہ-

6. 2015 ءکو خود ھمنت بشوا شرما ہی کے سرپرستی میں لۓ گۓ TET (اساتذہ کی اہلیت کا امتحان) میں کامیاب ہونے والوں کو آج تک کسی قسم کی کوئ تقرری حاصل نہیں ہوئ‘ تو انکا کیا ہوگا ؟

7.جو لوگ ان مدارس اسلامیہ سے فراغت حاصل کۓ ہیں ان کا مستقبل میں کیا ہوگا؟ انکی سرٹیفیکٹ کی مقبولیت کا کیا ہوگا ؟اس سلسلے میں کسی طرح کی کوئ وضاحت موجود نہیں ہے.

 میرا مشورہ:

ان مدرسوں کو پہلے ہی کی طرح چلایا جانا چاہئے اور اس کے نصاب کو ترميم كر کے جدید اور اپڈیٹ بنایا جانا چاہئے۔

 جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی صاحب نے خود کہا ہے ، "مدرسے کے طلبا کو ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس و کمپیوٹر رکھنے کی ضرورت ہے۔"

 


دعا کی درخواست

رقیب الاسلام ابن رشید سلفی

Rakibul Islam Salafi

جمعہ، 1 جنوری، 2021

والد محترم... ابوالمكرم رحمه الله جمع وترتیب: حسان بن ابوالمكرم | Shaikh Abul Mukarram

 والد محترم... ابوالمكرم رحمه الله

جمع وترتیب: حسان بن ابوالمكرم

 -----------------------------------------------------------------------------------

الحمدالله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم قال الله تعالى (كل من عليها فان)

اس دنيا میں آدم علیہ السلام سے لے کر تا قیامت موت کا سلسلہ جاری ہے، یہ دنیا ایک گزرگاہ ہے جہاں سے ہر ایک کو گزرنا ہے، مگر کچھ لوگوں کی وفات سے دنیا میں ایک خلا ہوجاتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایک آدمی کی وفات نہیں بلکہ ایک جماعت کی وفات ہوئی ہے، انھیں میں سے ایک وفات والد محترم ابو المکرم رحمہ اللہ کی ہے۔

ایک بیٹے کے لیے اپنے والد کے متعلق کچھ لکھنا نہایت مشکل امر ہے، وہ دونوں اعتبار سے کوتاہ ثابت ہوسکتا ہے، وہ کما حقہ محاسن اور خدمات کو بیان نہ کرسکے تو اس اعتبار سے کوتاہ ہوگا، یا فرط محبت میں ایسی باتیں بیان کردے جسے اس کے والد نہ پسند کرتے ہوں کہ اسے عام کیا جائے تو اس اعتبار سے بھی وہ کوتاہ اور نافرمان ہوگا۔

بہر حال اللہ تعالی کی توفیق سے حتی المقدور باتیں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں، چونکہ والد صاحب رحمه الله کے وقت وفات ميرى كم عمرى تھی اس لیے ان كى تعليم وتربيت وغيره کے متعلق زیادہ معلومات نہ تھی، لہذا ان جوانب پر نقولات کے ذریعہ معلومات کو مستند کرنے کی کوشش کروں گا، اور جن امور کا واسطہ بذات خود رہا اسے ان شاء الله اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

نام ونسب:

آپ کا نام ابو المکرم ہے، بہت سے لوگوں کو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ کنیت ہے، حالانکہ یہ نام ہے، ماہ شوال میں ولادت کی وجہ سے (ابو المكرم) نام رکھا گیا۔

سلسلہ نسب یہ ہے ابوالمكرم بن عبدالجليل بن نامدار بن محكم بن نعمت الله انصارى

ولادت 1383ھ کے ماہ شوال مطابق 31 مارچ 1963ع بمقام سانڈہ (ضلع بستى) حاليہ سنت کبیر نگر یوپی میں ہوئی۔

تعلیم:

ابتدائی تعلیم آپ نے والدین سے حاصل کی، جب پانچ سال کے ہوئے تو والدین نے آپ کو میاں برکت علی رحمہ اللہ کے پاس قاعدہ بغدادی پڑھنے کے لیے بھیج دیا، اس کے بعد مولانا محمد امين صاحب رياضى مدرسہ عربیہ مدینة العلوم كرنجوت بازار لوهرسن میں تدریسی خدمات انجام دینے کے لیے پہنچے تو آپ حصول علم كى خاطر ان کے پاس گیے اور درجہ دوم تک کی تعلیم وہیں پر مولانا ریاضى صاحب سے حاصل کی، اس کے بعد آپ ایک سال کے لیے مدرسہ مفتاح العلوم(دھوبہا) بھی گیے، اور پھر جب 1973 میں مولانا ابوالوفا زاہد صاحب مدرسہ مدینة العلوم کرنجوت آئے تو آپ مدینة العلوم میں پھر چلے آئے، چنانچہ فارسی وعربی کی ابتدائی کتابیں آپ رحمہ اللہ نے مولانا ابوالوفا زاہد صاحب سے پڑھیں، وہاں پر والد صاحب کا امتحان لے کر درجہ سوم میں داخل کرلیا گیا اور ایک ہی سال میں انھیں درجہ پنجم تک بڑھادیا گیا، ششماہی تک والد محترم نے فارسی اول، دوم، آمدنامہ، تیسیر المبتدی، چہل سبق وغیرہ پڑھ ڈالا، شیخ سعدی رحمہ اللہ کی دو مشہور کتابیں گلستاں بوستاں ششماہی کے بعد پڑھنا شروع کیا اور اختتام سال تک فارسی کا نصاب الحمدللہ پورا کرلیا۔

اس کے بعد ڈاکٹر حامد الانصارى انجم صاحب کے طلب پر جد محترم نے والد گرامی کو انجم صاحب کے سایہ عاطفت میں دے دیا، ان دنوں مولانا انجم صاحب رحمه الله نیپال کے موضع (ہرنام پور) میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، یہ سن 1975 کی بات ہے۔

وہاں سے مولانا انجم صاحب کے اشتیاق پر مدرسہ مفتاح العلوم (بھٹ پڑا) میں داخلہ کرادیا گیا جہاں پر آپ نے عربی کی دوسری تیسری نیز جماعت رابعہ تک تعلیم بابائے قوم مولانا خلیل الرحمن صاحب صديقى كى شاگردی میں رہ کر حاصل کی۔

اس کے بعد سن 1979 میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے جامعہ سلفیہ بنارس کا رخ کیا، اور بحمداللہ جامعہ میں آپ کا داخلہ ہوگیا اور وہاں پر آپ نے کل 6 سال تک تعلیم حاصل کی، جس میں 4 سال عالمیت اور دو سال فضيلت کا کورس تھا، سن 1982 میں آپ نے عالمیت کی سند حاصل کی،   اور  1984 میں آپ نے الحمدللہ فضيلت کی ڈگری حاصل کی، ساتھ میں دوران تعلیم الہ آباد بورڈ سے منشی مولوی اور عالم کے امتحانات بھی پاس کیے۔ (ملاحظہ ہو: مقالہ برائے سند فضيلت بعنوان: فضيلة الشيخ جناب ابوالمكرم عبد الجليل السلفى رحمه الله حيات وخدمات، مقالہ نگار: عم محترم عمران احمد عبدالجلیل، زیر اشراف: مولانا محمد رئیس ندوی رحمہ اللہ، تعلیمی سال 1425-26 ھ 2004-5ع)

جامعہ سلفیہ فراغت کے بعد آپ کی منظورى شاه سعود يونيورسٹی (جامعة الملك سعود) رياض سعودى عرب میں تدریب المعلمین(ٹیچر ٹریننگ کورس) میں ہوئی، اس کورس کی تکمیل کے بعد آپ کا داخلہ اسی جامعہ کے کلية التربية (تربيت كالج) كے قسم الدراسات الإسلامية(شعبہ اسلامیات) میں مزید پڑھنے کا موقع ملا اور اللہ کے فضل وكرم سے آپ نے1416ھ میں لیسانس کی ڈگری حاصل کرلی۔

اساتذہ:

کسی بھی انسان کی کامیابی کے اللہ تعالی کی توفیق اور اس کے فضل وکرم کے بعد والدین، اساتذہ کا ہاتھ رہتا ہے

والد محترم ہمیشہ اساتذہ کرام کے احترام اور ان کی عزت کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے، ان کے لیے دعا خیر کی توجہ دلاتے تھے، کیونکہ یہ بھی علم اور علماء کے احترام کی ایک شکل ہے

اساتذہ کرام کی ایک طويل فہرست ہے لیکن چند کے نام پر اکتفا کرتا ہوں، ورنہ دعاء خير تمام اساتذہ کرام کے لیے ہے اور ان کا مقام ومرتبہ اس ذکر سے بلند وبالا ہے

1۔ جد محترم عبدالجلیل صاحب

2۔ مولانا ابوالوفا زاہد صاحب

3۔ مولانا محمد امین ریاضی

4۔ شیخ الحدیث مولانا شمس الحق صاحب سلفی

5۔ مولانا ابو عبیدہ عبدالمعید صاحب بنارسی

6۔شیخ الجامعہ مولانا عبدالوحید صاحب رحمانی

7۔ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری

8۔ مولانا صفى الرحمن مبارکپوری

9۔شیخ عبد السلام مدنی

10۔ مولانا محمد مستقیم سلفی

11۔ ڈاکٹر عبد الرحمن فوزان

12۔ڈاکٹر سعد حمید

13۔ ڈاکٹر عبداللہ ظافر قحطانى

14۔ مولانا عزیز الرحمن سلفی 

وغيرہ،  اللہ تعالی تمام اساتذہ کرام کو جزائے خیر دے اور جو ان میں سے گزر گیے ہیں ان کی مغفرت فرمائے۔آمین

تدریس:

"فراغت کے بعد تقریبا ڈیڑھ سال تک جامعہ سلفیہ بنارس کے شعبہ (إدارة البحوث الإسلامية) میں آپ نے کام کیا، پھر کچھ مجبوریوں کی بنا پر اکتوبر 1985 کے اواخر سے لے کر اپریل 1986 تک ممبئی کے ایک اسکول (انجمن اخوة الاسلام) میں بحیثیت مدرس کام کرتے رہے، اس کے بعد جون 1986 تا جون 1987 (مركز ابوالكلام آزاد للتوعية الإسلامية) نئی دہلی کے شعبہ تدریس (معهد التعليم الإسلامي) اور شعبہ تحقیق (مجمع البحوث الإسلامية) میں کام کیے، جولائی 1988 سے دہلی کے قدیم ترین سلفی ادارہ (مدرسہ ریاض العلوم) دہلی میں بحیثیت مدرس کام کرنے لگے اور 1990 تک اس مدرسہ میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے" دیکھیے (باچشم نم، از: مولانا محمد مستقیم سلفی، ماہنامہ السراج، فروری تا اپریل 2005 صفحہ 78”۔

جامعة الملك سعود سے فراغت کے بعد آپ (وكالة المطبوعات والبحث العلمي بوزارة الشؤون الإسلامية والدعوة والإرشاد) سے جڑ گیے اور تاحیات اسی سے منسلک رہے

اضافی وقت (مکتب جالیات سلطانہ) کے ساتھ متعاون تھے، نیز مختلف جالیات کے زیر نگراں جو دعوتی وتدریسی پروگرام چلتے تھے اس میں بھی شرکت کرتے اور عقیدہ وغیرہ کی گھنٹیاں پڑھاتے، اسی طرح (مكتبة دار السلام) كے ساتھ بھی متعاون رہے اور ان کے زیر اشراف کچھ کتابوں کا ترجمہ کیے۔

مرض اور وفات:

دسمبر 2004 کے آغاز میں پیٹ کا درد شروع ہوا، لیکن افاقہ نہ ہونے کی وجہ سے شہر ریاض کے ایک معروف ہسپتال (شمیسی) میں تقریبا 3 ہفتوں تک ایڈمٹ رہے، اس دوران کئی بار پیٹ سے زائد پانی کو نکالا گیا، پانی نکالنے کے بعد آرام ہوجاتا مگر وہی پانی دوبارہ بنتا رہتا، مختلف طرح کی جانچ ہونے کے ساتھ ساتھ رپورٹس کئی جگہ بھیجی گئیں مگر مرض کی تشخیص تاخیر میں ہوئی اور وہ لاعلاج بن چکا تھا، اشارہ اشارہ میں کچھ ڈاکٹروں نے مایوسی کا بھی اظہار کردیا، والد صاحب کے کچھ متعلقین نے ہندوستان میں علاج کرانے کا مشورہ دیا۔

چنانچہ 13 جنوری 2005 مطابق 2 ذی الحجہ 1425ھ کو ہم سب رفیع الدین چچا کی معیت میں دہلی آئے جہاں پر گھر اور خاندان کے چند افراد پہلے سے موجود تھے، خورشید چچا، شکیل چچا، عبدالمالک چچا، عبدالباری دادا، عزیز الحق نانا وغیرہ تیمارداری میں مصروف تھے۔

ہم لوگوں کا قیام (دار الدعوة) نئی دہلی میں تھا، والد صاحب کو (بترا) ہاسپٹل میں ایڈمٹ کیا گیا، مگر ڈاکٹروں نے حالت دیکھ کر مایوسی کا اظہار کیا اور یہ اشارہ کردیا کہ یہ چند دنوں کے مہمان ہیں، حتی المقدور ان کی خدمت کریں، کینسر ان کے جسم پر مکمل طور سے حاوی ہوچکا ہے۔۔۔یہ ساری باتیں میں نے کچھ لوگوں کہتے ہوئے سنا تھا، اور (دار الدعوة) کی چھت پر ایک دو لوگوں سے ذکر کیا تھا کہ کچھ کوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے ابو کو کینسر ہوگیاہے؛ مگر ان لوگوں نے فوری طور پر اس بات کا انکار کردیا اور مجھے بھی سختی سے منع کردئیے کہ یہ سب فالتو باتیں کسی سے مت کہنا۔۔۔میں نے بھی ان کی نصيحت پر عمل کرتے ہوئے اس بات کو وہیں دفن کردیا۔

چونکہ عید الاضحی کا موقع تھا اس لیے ٹکٹ وغیرہ کی پریشانی چل رہی تھی، شیخ اصغر صاحب نے کسی طرح ہم سب کے ٹکٹ کا انتظام کیا اور ہم لوگ 19 جنوری 2005 کو بدھ کے دن اپنے گاؤں کے لیے نکل پڑے۔

اگلے دن صبح کو گورکھپور ریلوے اسٹیشن پہنچے وہاں پر بھی خاندان کے کچھ افراد آئے تھے اور ساتھ میں وہیں کے ایک مشہور حکیم بھی تھے جن کو ساتھ لیکر ہم لوگ گھر پہنچے، دادا دادی اور خاندان کے افراد سے ملاقات ہوئی، مگر والدصاحب کے پیٹ کا درد بڑھتا جارہا تھا، بسا اوقات درد سے کراہنے کی آواز بھی آتی، جس کمرے میں لیٹے تھے اسی میں لوگ ملاقات اور عیادت کے لیے آتے جاتے رہے، آپ کی زبان پر دعائیں اور دیگر اذکار جاری تھے، عشا کے بعد کمرے میں گیا، والد صاحب نے پوچھا کہ نماز پڑھ لیے؟ اور کھانا کھا لیے؟ میں نے مثبت جواب دیا، پھر کہنے لگے ٹھیک ہے جاؤ سو جاؤ.

رات کے تقریبا 12 بج کر 40 منٹ میرے پھوپھی زاد بھائی احمد نے مجھے جگایا کہ اٹھو حسان (تمھارے ابو کا انتقال ہوگیا ہے)، اچانک نیند سے اٹھا، ایسا لگ رہا تھا کہ خواب دیکھ رہا ہوں، دل کی کیفیت عجیب سی ہوگئی، بدن میں ارتعاش ہوا، ہمت کرکے کمرے میں داخل ہوا دیکھا کہ خبر صحيح ہے، دس منٹ پہلے کی خبر تھی، زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، غم کا ایک پہاڑ ٹوٹا، دنیا تاریک دکھنے لگی، والدہ کو بے حال دیکھا، اس وقت میری عمر 11 سال کی تھی، اور چھوٹا بھائی سلمان ایک سال کا تھا، مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ موت کس کو کہتے ہیں اور کسی کا چلے جانا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے، کہاں والدين سے ایک پل کی بھی جدائی نا قابل برداشت ہوتی ہے اور یہاں تو ہمیشہ کے لیے جدائی ہے

یہ حادثہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب 10 ذی الحجہ 1425ھ مطابق 21 جنوری 2005 کو ہوا، اس وقت والد صاحب كى عمر 42 سال تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

شیخ محمد جعفر مدنی حفظه الله فرماتے ہیں " حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" من مات في البطن فهو شهيد" ( مسلم: 914،1915)  یعنی پیٹ کے مرض میں مرنے والا شہید ہے۔ اور فرمایا:" من يقتله بطنه فلن يعذب في قبره"( احمد: 4/262 ترمذی:1064، نسائی: 2052) یعنی جو پیٹ کے مرض میں انتقال کر جائے اسے قبر میں عذاب نہیں دیا جائےگا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"ما من مسلم يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة إلا وفاه الله فتنة القبر"(احمد:،2/167،169 وترمذی 1074) یعنی جو بھی مسلمان جمعہ کے دن یا اس کی رات میں انتقال کر جائے تو اللہ تعالی فتنہ قبر سے اس کی حفاظت فرمائیں گے۔( ملاحظہ ہو: احکام الجنائز53،49)

یہ بات بھی سچ ہے کہ شیخ ابوالمکرم صاحب پیٹ کی بیماری اور جمعہ کی رات میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، أرجو من الله ذلك ولا أزكى على الله أحدا"

(دیکھیے جریدہ ترجمان، جلد 25 شمارہ 9، 1-15 مئی 2005، تحریک وعمل سے بھر پور زندگی ص15)

صبح جمعہ کا دن ہونے کے ساتھ عید الاضحى کا بھی دن تھا، اور اسی دن جمعہ کے بعد 2 بجے آپ کی نماز جنازہ دادا رحمہ اللہ نے مدرسہ زید بن ثابت (سانتھا بازار- سنت کبیر نگر) میں پڑھائی اور تدفین مدرسہ کے سامنے کی قبرستان میں ہوئی، جنازے میں لوگوں کا ہجوم تھا، مختلف مقامات سے لوگ آئے تھے، دور دراز سے علمائے کرام بھی شرکت کیے، اس کے بعد بھی کئی لوگ تعزیت کے لیے آتے رہے۔ رحمہ اللہ تعالی وغفر لہ وأدخله فسيح جناتہ۔

آپ اپنے پیچھے والدہ اور 6 بچے چھوڑ گیے، سب سے بڑا راقم السطور، درميان میں 4 بہنیں اور سب سے چھوٹا بھائی سلمان ہے۔

دینی خدمات:

اللہ تعالی کا بڑا فضل وكرم رہا کہ اس مختصر سی عمر میں الحمدللہ والد محترم کی متنوع خدمات رہیں، خواہ وہ تالیف وتصنيف كا ميدان ہو، یا دعوتی واصلاحى جانب، اور بحمداللہ 70 سے زائد کتابوں پر علمی کام کیے، ساتھ میں متعدد مضامين ومقالات بھی لکھے، جن کی تفصيل مندرجہ ذیل ہے:

1- دعوة الإمام محمد بن عبد الوهاب بين مؤيديها ومعارضيها في القارة الهندية، (عربى، تأليف) مكتبه دار السلام

2-   علماء أهل الحديث وموقفهم من دعوة الإمام محمد بن عبد الوهاب والدولة السعودية، (عربى، تأليف) دار الكتاب والسنة

3- علماء اهل الحديث وموقفهم من دعوة الإمام محمد بن عبد الوهاب والدولة السعودية، (اردو، تاليف) دار الكتاب والسنة

4-   إطلالة على جمعية الخلافة وموقفها من مؤتمر الحجاز (رد على جمعية الخلافة الهندية وموقفها الحاقد من الدولة السعودية    (اردو، تاليف)، مركزى جمعيت اهل حديث

5- مأساة الحرم المكي الشريف مؤامرة قذرة قديمة، (اردو، تاليف)، مركزى جمعيت اهل حديث

6- مكتبة رضا برامفور نشأتها وتطوراتها، (عربي، ترجمه)، مجله ثقافة الهند، دهلى

7- القاضي محمد أعلى التانوي حياته وآثاره، (عربى، ترجمه) مجله ثقافة الهند، دهلى

8- كشف الشبهات، (اردو، ترجمه)، وزارة الشؤون الإسلامية

9- لمعة الاعتقاد، (اردو،ترجمه)، وزارة الشؤون الإسلامية

10-             مجمل اعتقاد أئمة السلف، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)

11-             الأدلة الشرعية في حقوق الراعي والرعية، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)

12-             التحذير من وسائل التنصير، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)

13-             هذه نصيحتي لكل شيعي، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)

14-             الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)

15-             تحفة الإخوان بأجوبة مهمة تتعلق بأركان الإسلام، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

16-             تحفة الأخيار في الأدعية والأذكار، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

17-             خلاصة الكلام في أحكام الصيام، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

18-             العقيدة الواسطية، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

19-             فضل الإسلام، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

20-             زاد المسلم اليومي، (اردو، ترجمه)، دار الهديان

21-             ثلاث شعائر، (اردو، ترجمه)، الدار العلمية، دهلى

22-             البدعة واثرها السيء في الأمة، (اردو، ترجمه)، الدار العلمية دهلى، مكتب جاليات قصيم

23-             من منبر المسجد الحرام، (اردو، ترجمه)، جامعه سلفيه بنارس

24-             كتاب الكبائر، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)، دار الكتاب والسنة

25-             لماذا صلاة الفجر، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)، دار الكتاب والسنة

26-             اللحية لماذا، دار الكتاب والسنة

27-             قبل أن تصلي، (اردو، ترجمه)، مكتبه دار السلام

28-             هكذا حج الرسول صلى الله عليه وسلم، (اردو، ترجمه)

29-             آداب المشي إلى الصلاة، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)

30-             التحذير من البدع، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)

31-             ثلاث رسائل في الصلاة، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)

32-             من أخطاء الحج والعمرة، (اردو، ترجمه، غير مطبوع)

33-             التلفزيون وحكمه في الشريعة، (اردو، ترجمه)، مجله التوعية

34-             ستون سؤالًا عن أحكام الحيض، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

35-             رسالة الإمام عبد العزيز أو حقيقة دعوة الشيخ، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات غرب الديره

36-             إعانة المحتاج من كتاب المنهاج لشيخ الإسلام ابن تيمية، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات غرب الديره

37-             التوحيد أهميته وفضله، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات صناعيه قديمه

38-             التحذير من بدع رجب، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

39-             حكم تارك الصلاة، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

40-             فضل عشر ذي الحجة والأعمال الواردة فيها، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

41-             صفة العمرة، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

42-             حكم الصلاة في المساجد التي بها قبور، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

43-             الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه/ جمعيت اهل حديث

44-             الأسرة المسلمة، (اردو،ترجمه، غير مطبوع)

45-             دور المرأة في إصلاح المجتمع، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

46-             فتاوى مهمة تتعلق بالزكاة، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

47-             التفسير اليسير لسورة الفاتحة وجزء عم، (اردو، ترجمه)

48-             أبواب الجنة، (اردو، ترجمه)

49-             الأسرة المسلمة، (اردو، ترجمه)

50-             صفة الصلاة، (اردو، ترجمه)

51-             يا أخا الإسلام، (اردو، ترجمه)

52-             من فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

53-             الولاء والبراء في الإسلام، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات غرب الديره

54-             زيارة القبور والاستنجاد بالمقبور، (اردو، ترجمه)

55-             الإرشاد إلى صحيح الاعتقاد، (اردو، ترجمه)

56-             شرح أصول الإيمان، (اردو، ترجمه)

57-             نواقض الإسلام، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

58-             التحذير من الرؤيا المكذوبة على المصطفى صلى الله عليه وسلم، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

59-             حقوق دعت إليها الفطرة، (اردو، ترجمه)، مكتب جاليات سلطانه

60-             المعتقد الصحيح، (اردو، ترجمه)

61-             الخلاف بين العلماء أسبابه وموقفنا منه، (اردو، ترجمه)

62-             الدعاء من الكتاب والسنة والعلاج بالرقى من الكتاب والسنة، (اردو، ترجمه)، الجريسى فاونڈیشن

63-             بيان عقيدة أهل السنة والجماعة ولزوم اتباعها، (اردو، ترجمه)، الجريسى فاونڈیشن

64-             الطرق الحسان في علاج أمراض الجان، (اردو، ترجمه، اس کتاب کو والد صاحب رحمہ اللہ مکمل نہ کرسکے کہ وفات ہوگئی، چنانچہ اس ترجمہ کی تکمیل قاری اقبال صاحب حفظه الله نے کی ہے)، مكتبه دار السلام

مضامين ومقالات:

1- ٹیلی ویژن اور شریعت اسلامیہ (اردو، ترجمہ)، ماہنامہ (التوعيہ) نئی دہلی، اکتوبر نومبر 1988

2- اسلام اور تربیت اولاد (اردو)، ماہنامہ (التوعیہ) نئی دہلی 1986-78

3- مظلوم ابن سعود اور خلافت کمیٹی (عربی، ترجمہ)، صوت الأمة بنارس، أكتوبر۔ دسمبر 1987

4- مكتبة رضا برامفور نشأتها وتطورها (عربى، ترجمہ)، مجلہ (ثقافة الهند)

5- حرمت کعبہ کی پامالی ایک قدیم سازش (اردو)، ترجمان دہلی 1987

6- تاریخ کا یہ حیرت انگیز انقلاب (اردو)، ترجمان دہلی، مارچ اپریل 1988

7۔ سوال ملت کا ہے (اردو) نوائے اسلام، دہلی 1987

8۔ تعلیم نسواں افکار ونظريات (اردو، ترجمہ) الاسلام، دہلی 1987

9- ایک جنتی کی وفات پر ایک ضرورى وضاحت (اردو)، نوائے اسلام دہلی، نقوش حیات، لہرولی 1999

10- کن داعیا (عربی) ریاض، سعودى عرب کے کسی مجلہ میں یہ مضمون شائع ہوا تھا

11۔ تصوف کی حقيقت(اردو)، المنار، جامعہ سلفیہ بنارس 1982

12- مدارس اہل حدیث ایک جائزہ (اردو)، نوائے اسلام، دہلی

13- ہمارا نصاب تعليم امن وشانتى اور محبت كى تعليم ديتا ہے (اردو، ترجمہ) محدث، بنارس، جون-دسمبر 2003

مدرسہ زید بن ثابت کی تاسیس:

جس طرح سے آپ نے اپنی تحریر و تقریر اور تصنيف وتاليف كے ذریعہ دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا اسی طرح سے لوگوں کے اندر دینی بیداری اور سلفی حمیت پیدا کرنے کے لیے اور لوگوں کو دینی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے ایک مدرسہ کی داغ بیل ڈالی جس جس کا نام (زید بن ثابت) رکھا، پہلے تو مسجد ہی میں تعلیم کا بندوبست تھا اور تقریبا تین سال تک مسجد ہی میں پڑھائی ہوتی رہی، لیکن جب طلبہ کی تعداد زیادہ ہوگئی اور بیرونی طلبہ بھی زیر تعلیم ہوئے تو ضرورت محسوس ہوئی کہ مدرسہ کی ایک مستقل عمارت ہو، چنانچہ اسی کے پیش نظر 1993ع میں اس کی بنیاد ڈالی گئی اور یکم جنوری 1996 سے باقاعدہ مدرسہ زید بن ثابت میں تعلیم کا آغاز ہوگیا، اور مسجد کو نمازوں کے لیے خاص کردیا گیا

مدرسہ زید بن ثابت میں ابتدائی درجات کے ساتھ ساتھ ثانویہ ثانیہ(چوتھی جماعت) تک کی تعلیم کا بندوبست ہے، اور بحمداللہ اس مدرسہ کا الحاق جامعہ سلفیہ بنارس سے ہے، اس ادارہ سے علاقہ اور قرب وجوار میں سلفیت کے فروغ کو بڑی مدد ملی،ساتھ ہی طلبہ کی ذہنی استعداد اور صلاحيت کو اجاگر کرنے اور علمی تشنگی کو بجھانے کے لیے ایک لائبریری کا بھی قیام کیا گیا جس میں اردو کتابوں کے علاوہ متعدد عربی کتب بھی دستیاب ہیں جو مرجع ومصدر کی حیثیت رکھتی ہیں، ساتھ ہی مختلف اردو وعربی رسائل وجرائد کا بھی انتظام ہے"

(دیکھیے: مقالہ برائے سند فضیلت، فضيلة الشيخ جناب مولانا ابوالمکرم عبدالجلیل السلفی رحمہ اللہ حیات وخدمات، از: شیخ عمران احمد بن عبدالجلیل، ص78)

بچوں کی تعلیم وتربیت:

والد صاحب رحمه الله كے اندر خلوص وللهيت، ايثار وہمدردی، الفت ومحبت، جذبہ خیر، صبر وشكر، وقت كا صحيح استعمال، سليقہ مندی، احترام، مہمان نوازی، خندہ پیشانی، عفو ودرگزر، شہرت اور ریا کاری سے دور، خاکساری کی صفات سے متصف پایا، ان سب باتوں کے دیگر لوگ بھی معترف ہیں (ولانزكي على الله أحدا).

چنانچہ اتنی مصروفيات کے باوجود ہم لوگوں کی تعلیم وتربیت کی مکمل توجہ دیتے تھے، اس لیے گھر میں نصيحت وغيره كيا کرتے، نماز اور تلاوت قرآن وغیرہ کی نگرانی کرتے، اپنے ساتھ مسجد لے کر جاتے، دینی اور علمی حلقوں میں شامل کرتے، صبح فجر میں اپنے ساتھ مسجد لیکر جاتے، واپسی کے بعد ساتھ ہی میں تلاوت کرتے پھر ناشتہ کے بعد مجھے اور بہنوں کو مدرسہ چھوڑ کر آفس چلے جاتے، عصر سے لیکر مغرب تک حفظ قرآن کے لیے ایک مسجد میں نام لکھائے تھے اور پابندی کے ساتھ عصر سے پہلے مسجد چھوڑ جاتے اور اذان مغرب کے ساتھ واپس لینے پہنچ جاتے، راستے میں باتیں کرتے، سبق سنتے، اور اگلا سبق یاد کراتے، مغرب کے بعد سے عشا تک مدرسہ کے ہوم ورک کراتے؛ جو آج پڑھے ہیں اس کو دہرانا رہتا ہے اور جو کل پڑھنا ہے اس کی تیاری کراتے، اور یہ کسی ایک مضمون یا سبجیکٹ میں نہیں بلکہ تمام علوم وفنون میں ایسا کرتے، خواہ وہ عربی زبان ہو یا عربی قواعد یا نقل واملا، حساب اور سائنس، یہاں تک کہ فن رسم (پینٹنگ) میں بھی ایسی دلچسپی دکھاتے اور ایسا حوصلہ دیتے گویا معلوم ہوتا وہ اسی فن کے ماہر ہوں؛ اور اسی لیے وہ بار بار کہا کرتے تھے (حسان يتعلم مني وأنا أتعلم من حسان) کہ حسان مجھ سے سیکھتا ہے اور میں حسان سے سیکھتا ہوں۔

مغرب سے عشا تک کا وقت ہم لوگوں کی تعلیمی سرگرمی کے لیے خاص کیے تھے، وہ اس دوران نہ کہیں جاتے نہ کسی کو بلاتے اور نہ ہی جلد فون رسیو کرتے، بسا اوقات اگر کبھی کوئی مجبوری یا ضرورى کام پڑجاتا تو نماز عشا کے بعد وقت دیتے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ آغاز تعلیم میں ہم لوگوں کی عربی بہت کمزور تھی اس لیے تقریبا 2 سال تک والد صاحب گھر میں اکثر وبیشتر وقت ہم لوگوں سے عربی میں بات کیا کرتے تھے۔

وقت کا صحيح استعمال، ذمہ داری کو بخوبی انجام دینا والد صاحب کی فطرت میں تھا، مجھے کبھی نہیں یاد پڑتا کہ والد صاحب نے ڈیوٹی کے وقت اخبار پڑھا ہو؛ بلکہ اخبار گھر لے آتے اور گھر پہ پڑھتے، بلکہ ایک بار کسی نے والد صاحب کو ٹوکا تھا کہ آپ صبح صبح آفس میں آکر اخبار کیوں نہیں پڑھتے؟ تو اس پر والد صاحب نے جواب دیا کہ یہ ڈیوٹی کا وقت ہے، اس سے ضرورى کام میرے پاس ہیں، اخبار کو ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد پڑھ لوں گا۔

چونکہ ہم لوگوں کی تعلیم عربی زبان سے تھی، اس لیے والد صاحب نے گھر میں ہم لوگوں کو اردو اور انگریزی لکھنا پڑھنا شروع کردئیے تھے۔

ترجمہ نگاری کے وقت والد صاحب کی کوشش رہتی کہ ان کے ساتھ رہوں اور ان کا تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ سیکھ سکوں، چنانچہ قرآنی آیات کے حوالے یا احادیث کی تخریج میں مجھے مشق کراتے اور حوصلہ افزائی کرکے مزید دلچسپی پیدا کرتے۔

مزید تفصیلات کے لئے چند ایسے  مضامين کی طرف رہمنائی کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو والد صاحب کی وفات کے بعد لکھے گیے تھے  ان تمام حضرات کے شکریہ کے ساتھ، ان میں سے کچھ اردو میں ہیں اور کچھ عربی میں۔

اردو کے چند مقالات یہ ہیں:

1۔ میرے بھائی میرےعزیز مولانا ابوالمكرم، از جناب سہیل انجم صاحب حفظه الله، ترجمان دہلی، 1-2 مارچ 2005

2- بانم چشم، از مولانا محمد مستقیم سلفی حفظه الله، السراج فرورى- اپریل 2005

3-ابو المكرم ميرا بھائی "ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے"، از ایڈووکیٹ حماد انجم رحمہ اللہ، نور توحید، مارچ 2005

4- آہ ایک فاضل دوست نہ رہا، از مولانا عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ، ترجمان 16-30 ستمبر 2005

5- ایک دیا اور بجھا، از حافظ محمد الياس بن عبد القادر حفظه الله، ترجمان 15-16 مارچ 2005

6- تحریک وعمل سے بھر پور زندگی، از شیخ محمد جعفر بن انوار الحق، ترجمان 1-15 مئی 2005

7- خوش درخشید ولے شعلہ مستعجل بود، از مولانا مطيع الله بن حقيق الله مدنى حفظه الله، السراج فرورى-اپریل 2005

8- شیخ ابوالمكرم سلفی رحمہ اللہ شخصيت اور کارنامے، از شيخ انعام الله عبدالصمد حفظه الله، ترجمان 1-15 فروری 2007

9- عزیزی ابو المکرم سلفی کی یاد میں، از مولانا ابوالوفا زاہد حفظه الله، ترجمان 16-30 اپریل 2005

10- موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس، از ڈاکٹر شمس کمال انجم حفظہ اللہ، ترجمان 1-2 اپریل 2005

11- مولانا ابو المکرم عبدالجلیل سلفی، از ارشد عقیل سلفی حفظه الله، ترجمان 16-31 مارچ 2006

12- آہ شیخ ابوالمكرم، از شیخ اسعد اعظمى حفظه الله، ترجمان 15-16 فروری 2005

13- مقالہ برائے سند فضيلت بعنوان (فضيلة الشيخ جناب مولانا ابوالمكرم بن عبدالجليل السلفى رحمه الله حيات وخدمات)، مقالہ نگار عم محترم عمران احمد بن عبدالجلیل، زیر اشراف: مولانا محمد رئیس ندوی رحمہ اللہ، تعلیمی سال 1425-26ھ 2004-5 ، جامعہ سلفیہ (مرکزی دار العلوم) بنارس، ہند)۔

عربی مضامين یہ ہیں:

1.   الشيخ أبوالمكرم عبد الجليل إلى رحمة الله، للشيخ أسعد الأعظمي حفظه الله، مجلة صوت الأمة، محرم 1426ه

2.   الشيخ أبوالمكرم السلفي وأعماله العلمية، للشيخ محمد جهانكير بن جلال الدين السلفي حفظه الله، مجلة الاستقامة، رجب 1427ه

3.   تبكي بنارس ابنا كان يعرفها، للشيخ عبد العزيز بن محمد بن عتيق حفظه الله، مجلة صوت الأمة، رجب 1426ه

4.   إثر وفاة الشيخ أبوالمكرم عبد الجليل السلفي رحمه الله، للدكتور مقتدى حسن الأزهري رحمه الله، مجلة صوت الأمة، رجب 1426ه

5.   كوكب السحر، للدكتور عبدالأحد بن عبدالقدوس حفظه الله، مجلة صوت الأمة، رجب 1426ه

6.   نجم تألق ثم هوى الشيخ أبوالمكرم السلفي، للشيخ شفيق الرحمن بن رضا حسين حفظه الله، مجلة المنار 2005م

7.   نعم الأخ حريص على كل خير، الشيخ عبدالرحمن بن سعد آل فريان، مجلة صوت الأمة، رجب 1426ه

اللہ تعالی والد صاحب کی مغفرت فرمائے، اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین

وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم


تحریر: حسان بن ابوالمكرم


دعا گو : رقیب الاسلام ابن رشید سلفی

کرلا (ویسٹ)ممبئ - 70، ہند

Rakibul Islam Salafi

Haqeeqi Kaamiyabi | حقیقی کامیابی | اولاد کی تربیت

حقیقی کامیابی  اولاد کا ڈاکٹر انجینئر اور اعلی تعلیم یافتہ ہونا کامیابی نہیں ؛ بلکہ اولاد کا نیک ہونا سعادت مندی اور بڑی کامیابی ہے۔۔۔ نیک ا...