منگل، 26 ستمبر، 2017

عرشِ عظیم کے سائے میں سات اشخاص-- THE SEVEN UNDER THE SHADE OF ALLAH-----------Rakibul Islam Salafi

عرشِ عظیم کے سائے میں سات اشخاص



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله: الإمام العادل، وشاب نشأ في عبادة ربه، ورجل قلبه معلق في المساجد، ورجلان تحابا في الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه، ورجل طلبته امرأة ذات منصب وجمال، فقال إني أخاف الله، ورجل تصدق، اخفى حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه، ورجل ذكر الله خاليا، ففاضت عيناه۔)

حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سات طرح کے آدمی ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔
 : اول
انصاف کرنے والا بادشاہ

دوم :

وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا
سوم :

ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہتا ہے
چہارم :

دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہیں اور ان کے ملنے اور جدا ہونے کی بنیاد یہی للہی محبت ہے
پنجم :

وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے (برے ارادہ) سے بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں
ششم :

وہ شخص جس نے صدقہ کیا ، مگر اتنے پوشیدہ طور پر کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے خرچ کیا
ہفتم :

وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور (بےساختہ) آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

صحيح بخاري ، كتاب الاذان ، باب : من جلس في المسجد ينتظر الصلاة وفضل المساجد‏ ، حدیث : 663



مولانا داؤد راز (رحمۃ  اللہ) اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :


حدیث مذکور میں جن سات خوش نصیبوں کا ذکر کیا گیا ہے ، اس سے مخصوص طور پر مَردوں ہی کو نہ سمجھنا چاہئے بلکہ عورتیں بھی اس شرف میں داخل ہو سکتی ہیں اور ساتوں اوصاف میں سے ہر ہر وصف اس عورت پر بھی صادق آ سکتا ہے جس کے اندر وہ خوبی پیدا ہو۔
مثلاً : پہلا شخص الامام العادل ، یعنی انصاف کرنے والا بادشاہ ۔۔۔ اس میں وہ عورت بھی داخل ہے جو اپنے گھر کی ملکہ ہے اور اپنے ماتحتوں پر عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرتی ہے ، اپنے جملہ متعلقین میں سے کسی کی حق تلفی نہیں کرتی ، نہ کسی کی رو رعایت کرتی ہے بلکہ ہمہ وقت عدل و انصاف کو مقدم رکھتی ہے ۔۔۔ و علی ہذا القیاس۔

علامہ ابو شامہ عبدالرحمٰن بن اسماعیل نے ان سات خوش نصیبوں کا ذکر ان اشعار میں منظوم کیا ہے :


 وقال النبی المصطفی ان سبعۃ
یظلھم اللہ الکریم بظلہ
محب عفیف ناشی متصدق
باک مصل والامام بعدلہ
۔
۔
Rakibul Islam Salafi @ Mumbai

جمعہ، 22 ستمبر، 2017

ماہ محرم میں رائج بدعات و خرافات - رقیب الاسلام ابن رشید سلفی ممبئ ، ہند




ماہ محرم میں رائج بدعات و خرافات

السلام علیکم اسلامی  اخوان و اخوات !
الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد !

۱:بعض لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ “محرم میں شادی نہیں کرنی چاہیے” اس بات کی شریعتِ اسلامیہ میں کوئی اصل نہیں ہے۔
۲: خاص طور پر محرم ہی کے مہینے میں قبرستان پر جانا اور قبروں کی زیارت کرنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے ، یاد رہے کہ آخرت و موت کی یاد اور اموات کے لئے دعا کے لئے ہر وقت بغیر کسی تخصیص کے قبروں کی زیارت کرنا جائز ہے بشرطیکہ شرکیہ اور بدعتی امور سے مکمل اجتناب کیا جائے۔

۳: عاشوراء (۱۰ محرم) کے روزے کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا:

وصیام یوم عاشوراء احتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ“ میں سمجھتا ہوں کہ عاشوراء کے روزے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گزشتہ سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ (صحیح مسلم : ۲۷۴۶، ۱۱۶۲/۱۹۶)

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ “افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم” رمضان کے بعد سب سے بہترین روزے، اللہ کے (حرام کردہ) مہینے محرم کے روزے ہیں۔ (صحیح مسلم : ۲۷۵۵ ، ۱۱۶۳/۲۰)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: “خالفوا الیھود وصوم التاسع و العاشر“یہودیوں کی مخالفت کرو اور نو (محرم) کا روزہ رکھو۔ (مصنف عبدالرزاق ۲۸۷/۴ ح ۷۸۳۹ و سندہ صحیح، والسنن الکبری للبیہقی ۲۸۷/۴)

۴: محرم حرام کے مہینوں میں ہے ، اس میں جنگ وقتال کرنا حرام ہے الایہ کہ مسلمانوں پر کافر حملہ کردیں ۔ حملے کی صورت میں مسلمان اپنا پورا دفاع کریں گے۔

۵: محرم ۶؁ھ میں غزوہ خیبر ہوا تھا  (۲۳مئی ۶۲۷؁ء) دیکھئے تقدیم تاریخی ص ۲
۶: ۱۰محرم ۶۱؁ھ کو سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کربلاء میں مظلومانہ شہید کئے گئے۔ ان کی شہادت پر شور مچا کر رونا ، گریبان پھاڑنا اور منہ وغیرہ  پیٹنا سب حرام کام ہے ۔ اسی طرح “امام زادے” وغیرہ کہہ کر افسوس کی مختلف رسومات انجام دینا اور سبیلیں وغیرہ لگانا شریعت سے ثابت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب ۔

طالب الدعاء الخیر والعافیہ
رقیب الاسلام بن رشید علی سلفی
کرلا (ویسٹ)ممبئ -70، ہندوستان

Rakibul Islam Salafi- رقیب الاسلام بن رشید علی سلفی

پیر، 28 اگست، 2017

عورتوں کی عید گاہ میں شامل ہونا دلیل کے ساتھ

Photo

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ۔
عورتیں بازاروں میں جا سکتی ہیں، عورتیں درباروں میں جا سکتی ہیں، عورتیں مدارس میں جا سکتی ہیں، عورتیں شادی بیاہ باراتوں میں تو جا سکتی ہیں۔۔
مگر جہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم دیا کہ عید گاہ میں جایا کرو۔۔ وہاں پر عورتوں کا جانا کیوں حرام ہے؟؟ قرآن وسنت سے اتنی چڑ کیوں ہے ؟؟

حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
“أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ عَنْ مُصَلاَّهُنَّ قَالَتِ امْرَأَةٌ يَارَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَاب ٌقَالَ لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا”

ہمیں عیدین میں جوان اور حائضہ عورتوں کو عید گاہ لے جانے کا حکم دیا گیا، وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعا میں شریک ہونگی اور حائضہ عورتیں مصلیٰ )نماز کی جگہ ( سے الگ رہیں گی ایک عورت نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہوتو؟ آپ نے فرمایا : چاہئے کہ اسے اس کی کوئی ساتھی اپنی زائد چادر دیدے-
صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري 1/ 99

طالب دعاء
رقیب الاسلام سلفی
ممبی، ہند


ہفتہ، 8 جولائی، 2017

کیاعذاب و راحت ِقبر کا تعلق اسی دنیاوی جسم اور دنیاوی قبرسے ہے؟ (رقیب الاسلام بن رشید علی سلفیؔ)

کیاعذاب و راحت ِقبر کا تعلق اسی دنیاوی جسم اور دنیاوی قبرسے ہے؟
قرآن ِمجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
٭  مِمَّا خَطِيْۗـــٰٔــتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا  ۔ فَلَمْ يَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا  
   ”(نوح  ؑکی قوم والے) اپنی خطاؤں کی بناء پر ڈبو دئیے گے اور آگ میں داخل کردئیے گےتو انھوں نے اللہ کے علاوہ کسی کو 
اپنا مددگار نہ پایا۔“(نوح: ۲۵)
٭   ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْــــًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ     
   ” اور اللہ مثال دیتا ہے کافروں کو نوح  ؑو لوط ؑکی بیویوں کی، دونوں ہمارے نیک بندوں کے گھروں میں تھیں۔ دونوں نے خیانت کی تو 
وہ انکے کام نہ آئے اور انھیں حکم دیا گیا کہ داخل ہوجاؤ آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ۔“  (تحریم : ۱۰)
٭   وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُهٗ بَغْيًا وَّعَدْوًا  ۭ   حَتّٰٓي  اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ ۙقَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ   90؀ اٰۗلْئٰنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ  91؀فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَةً  ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْن 92؀
    ”اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گذار کر لے گئے۔ پھر فرعون اور اسکے لشکر نے ظلم و زیادتی کی غرض سے انکا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب وہ (فرعون) ڈوبنے لگا (اور غیب شہود بن گیا) تو پکار اٹھا کہ میں نے مان لیا کہ اس الٰہ کے علاوہ کوئی دوسرا الٰہ نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں نے بھی اسکے سامنے سر اطاعت خم کردیا۔(اللہ کی طرف سے جواب دیا گیا) اب ایمان لا رہا ہے حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فسادپرجمارہا۔اب تو ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کیلئے نشان ِعبرت بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ہماری نشانیوں سے غفلت برتتی ہے۔“  (یونس: ۹۰۔۹۲)
آل فرعون کیلئے مزید فرمایا گیا:
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْۗءُ الْعَذَابِ   45؀ۚاَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا ۚ وَيَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ    46؀
”آخر کار ان لوگوں نے جو بری چالیں اسکے خلاف چلیں اللہ نے سب سے اسکو بچا لیا اور آل ِفرعون خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے۔ جہنم کی آگ ہے جس پر صبح و شام وہ پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کردو۔“  (المومن: ۴۵۔۴۶)
    قرآن کریم کی ان آیات میں چند قوموں کا تذکرہ ہے جن کو اللہ تعالی نے عذاب کے ذریعے ہلاک کردیا۔ نوح و لوط علیہما السلام کی قومیں مکمل طور پر تباہ کردی گئیں،بتائیے کس نے انکی قبریں بنائیں؟ اللہ تعالی انکے لئے ڈبوکر ہلاک کردینے اور جہنم میں داخل کردینےکا ذکر فرماتا ہے حالانکہ انکے جسم تو اسی دنیا میں لاوارث پڑے تھے۔ اسی طرح فرعون اور اسکے ساتھیوں کی لاشیں بھی اسی دنیا میں ہیں لیکن انکے لئے فرمایا گیا کہ ان کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
٭   دَخَلَتْ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ
( عن عبد اللہ بن عمر ؓ ، بخاری، کتاب المساقاۃ ، بَابُ فَضْلِ سَقْيِ المَاءِ )
”ایک عورت جہنم میں داخل کردی گئی ا س وجہ سے کہ اس نے بلی کو باندھ کے رکھا ہو ا تھا نہ اسکو کھانے کیلئے کچھ دیا اور نہ ہی اسکو کھلا چھوڑا کہ وہ کیڑے وغیرہ کھا لیتی یہاں تک کہ وہ مر گئی۔“  
٭   عمرو بن لحی وہ شخص تھا کہ جس نے عرب میں بتوں کے نام پر جانور چھوڑنے کی رسم رائج کی تھی، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسکے متعلق فرمایا: رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَرَأَيْتُ عَمْرًا يَجُرُّ قُصْبَهُ وَهْوَ أَوَّلُ مَنْ سَيَّبَ 
السَّوَائِبَ
( عن عائشہ ؓ ، بخاری، کتاب العمل فی الصلاۃ ، بَابُ إِذَا انْفَلَتَتْ الدَّابَّةُ فِي الصَّلاَةِ)
”میں نے جہنم کو دیکھا کہ اسکا ایک حصہ دوسرے کو برباد کر رہا تھا اور اس میں عمرو بن لحی کو دیکھا وہ اپنی آنتیں کھینچ رہا تھا۔“
٭  ابو ثمامۃ عمرو بن دینار کیلئے فرمایا: وَرَأَيْتُ أَبَا ثُمَامَةَ عَمْرَو بْنَ مَالِکٍ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ 
( عن جابر بن عبد اللہ ؓ ، مسلم ، کتاب الکسوف ، باب ما عرض على النبي صلى الله عليه وسلم في صلاة الكسوف من أمر الجنة والنار)
 ”اور میں نے دیکھا ابو ثمامۃ کو جہنم میں اپنی آنتیں کھینچ رہا تھا۔“  
  قرآن و حدیث کے بیانات سے ثابت ہوا کہ ان دنیاوی جسموں کا عذاب قبر سے کوئی تعلق نہیں۔اب ہم آتے ہیں جزا کے معاملات کی طرف :
٭   ایک شخص کو اللہ کی طرف دعوت دینے پر شہید کردیا گیا ، قرآن بتاتا ہے :  قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۭ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ  26؀ۙ بِمَا غَفَرَ لِيْ رَبِّيْ وَجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُكْرَمِيْنَ  27
”اس سے کہا گیا داخل ہو جا جنت میں، کہنے لگا کاش میری قوم کو معلوم ہو جائے کہ اللہ نے مجھے بخش دیا اور عزت داروں میں شامل کردیا“ ( یٰس : ۲۶ ۔ ۲۷ )
   غزوہ بدر میں شہیدہونے والے حارثہ بن سراقہ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
يَا أُمَّ حَارِثَةَ إِنَّهَا جِنَانٌ فِي الجَنَّةِ، وَإِنَّ ابْنَكِ أَصَابَ الفِرْدَوْسَ الأَعْلَى
( عن انس بن مالک ؓ ، بخاری ، کتاب الکتاب و السیر ، بَابُ مَنْ أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ)
”اے حارثہ کی والدہ ، اللہ کی جنتوں کی تعداد تو بہت ہے تیرا بیٹا تو جنت الفردوس میں ہے۔“  
٭   غزؤہ احد کے شہداء کیلئے فرمایا :         
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ    ١٦٩؁ۙ فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھٖ ۙ وَيَسْـتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِيْنَ لَمْ يَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ    ١٧٠؁ۘ يَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ    ١٧١؁ (آل عمران: ۱۶۹ تا ۱۷۰ )
”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ تو اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور رزق پارہے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اس پر خوش و خرم ہیں کہ جو اہل ایمان انکے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی ان سے نہیں ملے انکے لئے بھی خوف اور رنج کا کوئی موقع نہیں ہے وہ اللہ کے انعام اور اسکے فضل سے شاداں و فرحاں ہیں اور انکو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔“ 
سورۃ آل عمران کی اس آیت کی تشریح میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا
( عن مشروق ، مسلم ، کتاب الامارۃ ، باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة، وأنهم أحياء عند ربهم يرزقون)
” شہداء کی روحیں سبز اڑنے والے جسموں میں ہیں اور انکے لئے قندیلیں عرشِ الہی سے لٹکی ہوئی ہیں وہ جنت میں جہاں چاہے گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ انکی طرف انکے رب نے جھانکا اور ارشاد فرمایا کہ تمھیں کسی اور چیز کی خواہش ہے۔ شہداء نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کرسکتے ہیں، جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں۔ اللہ تعالی نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہداء نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کرینگے انکا رب ان سے برابر پو چھتا رہے گا تو انہوں نے کہا کہ مالک ہماری تمنّا یہ ہے کہ ہماری روحوں کو پھر ہمارے جسموں میں واپس لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب کہ مالک نے دیکھ لیا کہ انہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے تو پھر ان سے پوچھنا چھوڑ دیا“ 
٭   عبد اللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ تعالی عنہ شہید احد کیلئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انکے بیٹے جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا:
قَالَ مَا کَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ وَأَحْيَا أَبَاکَ فَکَلَّمَهُ کِفَاحًا فَقَالَ يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِکَ قَالَ يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيکَ ثَانِيَةً قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ
( عن جابر ؓ، ترمذی، ابواب تفسیر القرآن ، باب : ومن سورۃ آل عمران ، روایت حسن )
”اللہ تعالی نے کسی سے بھی روبرو کلام نہیں کیا لیکن تمھارے والد سے آمنے سامنے کلام کیا اور فرمایا میرے بندے مانگ تجھے دونگا تو انھوں نے عرض کیا کہ اے رب مجھے دوبارہ زندہ فرما اور میں تیری راہ میں قتل کیا جاؤں۔ اللہ تعالی نے فرمایا یہ بات میری طرف سے طے ہوچکی ہے کہ یہ پلٹائے نہیں جائنگے۔“  
٭   جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ابن عمر رضی اللہ تعالی انکے بیٹے کو سلام کرتے ہوئے کہتے تھے :
 ”السلام علیک یا ابن ذی الجناحین“
( عن عامر، بخاری ، کتاب المغازی ، بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ )
 ”ا ے دو بازؤں والے کے بیٹے تم پر سلامتی ہو“ کہتے تھے۔  
اسکی وجہ یہ تھی کہ انکی شہادت سے قبل کافروں نے انکے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے تھے اور ترمذی کی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
 رَأَيْتُ جَعْفَرًا يَطِيرُ فِي الْجَنَّةِ مَعَ الْمَلَائِکَةِ
( عن ابی ہریرۃ ؓ ، ترمذی، ابواب المناقب ، بَابُ مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخِي عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، روایت غریب ، تائید بالروایۃصحیح البخاری )
”میں نے جعفر کو دیکھا وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ اڑ رہے تھے۔“    
٭   اپنے فرزند ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیلئے فرمایا :
 إنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ
( عن براء بن عازب ؓ ، بخاری ، کتاب الجنائز ، بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُسْلِمِينَ )
”جنت میں انکے لئے ایک دودھ پلانے والی ہے۔“
 اوپر بیان کردہ آیات ِ قرآنی و احادیث ِصحیحہ سے بات مکمل طور پر واضح ہو گئی ہے کہ جزا و سزا یعنی عذاب قبر اور راحت کا معاملہ اس دنیاوی جسم کے ساتھ ہر گز نہیں کیونکہ جو دفن نہیں کئے گئے انکو بھی عذاب میں مبتلا کیا گیا ہے اور جن کے جسم عجائب گھر یا اسی دنیا میں موجود ہیں انکے لئے بھی صبح و شام جہنم پر پیش کئے جانے کا بیان ہے اور جو اس ارضی قبر میں دفن کئے گئے انکی سزا جہنم میں اور جزا جنت میں بیان کی گئی۔ مندرجہ ذیل حدیث بھی اسی بات کی وضاحت کرتی ہے:۔
  مَا مِنْ عَبْدٍ یَمُوْتُ لَہٗ عِنْدَاﷲِ خَیْرٌ یَّسُرُّہٗ اَنْ یَرْجِعَ اِلَی الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا اِلَّا الشَّھِیْدَ لِمَا یَرٰی مِنْ فَضْلِ الشَّھَادَۃِ فَاِنَّہٗ یَسُرُّہٗ اَنْ یَّرْجِعُ اِلَی الدُّنْیَا فَیُقْتَلُ مَرَّۃً اُخْرٰی…
( عن انس بن مالک ، بخاری، کتاب الجھاد و السیر ، بَابُ الحُورِ العِينِ، وَصِفَتِهِنَّ يُحَارُ فِيهَا الطَّرْفُ، شَدِيدَةُ سَوَادِ العَيْنِ، شَدِيدَةُ بَيَاضِ العَيْنِ)
”بندوں میں سے جو کوئی مرتا ہے اور اس کے لئے اللہ کے پاس کچھ خیر ہے تو نہیں چاہتا کہ دنیا کی طرف لوٹ آئے اگرچہ اسکو دنیا کی ہر چیز دے دی جائے، مگر سوائے شہید کہ اس نے شہادت کی فضیلت دیکھ لی ہوتی ہے لہذا وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی طرف لوٹ آئے اور دوبارہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے۔“          
مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا أَحَدٌ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا وَلَهُ مَا عَلَی الْأَرْضِ مِنْ شَيْئٍ إِلَّا الشَّهِيدُ يَتَمَنَّی أَنْ يَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا فَيُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا يَرَی مِنْ الْکَرَامَةِ
( عن انس بن مالک ، بخاری، کتاب الجھاد و السیر ،بَابُ تَمَنِّي المُجَاهِدِ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا)
’’ انس بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جنت میں داخل ہوتا ہے، وہ اس بات کو نہیں چاہتا، کہ دنیا کی طرف پھر لوٹ جائے، چاہے دنیا میں اسے دنیا بھر کی چیزیں مل جائیں، البتہ شہید یہ چاہتا ہے کہ وہ ہر بار دنیا کی طرف لوٹا یا جاتا رہے، تاکہ وہ دس مرتبہ قتل کیا جائے، کیونکہ وہ قتل فی سبیل اللہ کی فضیلت دیکھ چکا ہے۔‘‘
 فاسق بھی اس دنیا سے جانے کے بعد لوٹائے جانے کی درخواست کرتا ہے جو رد کردی جاتی ہے۔  (المومنون:۹۹۔ ۰۰۱)
معلوم ہوا کہ مرنے والا اس دنیا سے چلا جاتا ہے اور جس کسی کیلئے اللہ تعالی کے پاس بھلائی ہے تو وہ کبھی بھی اس دنیا کی طرف واپس آنا پسند نہیں کرتا چاہے اسکو دنیا کی ہر چیز دے دی جائے اس لئے کہ اللہ تعالی کی نعمتوں کے مقابلے میں ساری دنیا بھی اسے کم تر نظر آتی ہے۔ شہید چونکہ شہادت کی فضیلت دیکھ چکا ہوتا ہے اس لئے چاہتا ہے کہ دوبارہ اس دنیامیں بھیجا جائے اور اللہ کی راہ میں لڑ کر دوبارہ شہید ہو اور اس فضیلت کو پھر حاصل کرے لیکن اللہ تعالی فیصلہ فرما چکا ہے کہ دنیا سے جانے والے قیامت سے پہلے واپس نہیں لوٹائے جائیں گے۔ یہ سب اس زمینی قبر میں نہیں بلکہ کسی اور مقام پر ہوتا ہے جہاں سے وہ اس دنیا کی طرف آنے کی خواہش کرتا ہے۔ اسی طر ح کافر و فاسق موت سے ہمکنار ہوتا ہے تو حقیقت اسکے سامنے واضح ہو جاتی ہے وہ بھی اس دنیا میں واپس بھیجے جانے کی درخواست کرتا ہے جو کہ رد کردی جاتی ہے۔
 اس سلسلے میں مزید احادیث ملاحظہ فرمائیے جو اس بات کی قطعی وضاحت کردیتی ہیں کہ مرنے کے بعد جزا و سزا کا اس زمینی قبر سے کوئی تعلق نہیں:۔
٭   نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کیلئے جس جگہ کا انتخاب فرمایا وہاں مشرکین کی قبریں تھیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر وہ قبریں کھود دی گئیں، 
فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ
( عن انس بن مالک ؓ ، بخاری، کتاب الصلاۃ ، بَابٌ: هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِي الجَاهِلِيَّةِ، وَيُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ )
٭   غزوہ بدر کے موقع پر مارے گئے مشرکین کی لاشوں کو علیحدہ علیحدہ دفن کئے جانے کے بجائے ایک کنوئیں میں ڈال دیا گیا، لیکن 
امیہ بن خلف کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گیاتھا لہذا وہ اس میں نہیں ڈالا جاسکا:
يَوْمَ بَدْرٍ فَأُلْقُوا فِي بِئْرٍ غَيْرَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ أَوْ أُبَيٍّ تَقَطَّعَتْ أَوْصَالُهُ فَلَمْ يُلْقَ فِي الْبِئْرِ۔“    
( عن عبد اللہ ؓ ، بخاری ، کتاب مناقب الانصار ، بَابُ مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنَ المُشْرِكِينَ بِمكَّةَ)
٭   ایک شخص ایمان لایا اور کاتب وحی مقرر ہوا، پھر مرتد ہو گیا اسکی موت پر لوگوں نے جب اسے دفن کیا تو زمین نے رات کو اسے باہر پھینک دیا اسی طرح تین دفعہ دفن کئے جانے کے بعد بھی جب زمین نے اسکو باہر پھینک دیا تو اس کے لوگوں نے اسے یونہی پڑا رہنے دیا۔
فَأَمَاتَهُ اللَّهُ فَدَفَنُوهُ فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ فَأَعْمَقُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ وَأَعْمَقُوا لَهُ فِي الْأَرْضِ مَا اسْتَطَاعُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الْأَرْضُ فَعَلِمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ النَّاسِ فَأَلْقَوْهُ
( عن انس ؓ ، بخاری ، کتاب المناقب ، بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ )
 ٭         إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی يَهُودِيَّةٍ يَبْکِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا فَقَالَ إِنَّهُمْ لَيَبْکُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا   
( عن عائشہ ؓ ، کتاب الجنائز ، بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ ")
’’نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک (فوت شدہ)یہودی عورت کے پاس سے گذرے اسکے گھر والے اس پر رو رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ”یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے اسکی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔“  

 ذرا غور فرمائیے کہ اگر عذاب قبر اسی زمینی قبر میں ہوتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم مشرکوں کی قبروں کو کیوں کھدواتے؟ اللہ کے دشمن امیہ بن خلف کے جسم کے ٹکڑوں کو کنوئیں میں نہ ڈلواکر کیا اسے عذاب قبر سے بچا لیا؟ اور اسی طرح وہ مرتد بھی عذاب سے بچ گیا جسکے لاشے کو اسکی قبر نے باہر پھینک دیا!یہودی عورت والی حدیث تو اس عقیدۂ عذاب قبر کی حقیقت کو مکمل طور پر عیاں کررہی ہے کہ اس عذاب کا نہ اس دنیاوی جسم سے کوئی تعلق ہے نہ اس ارضی قبر سے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ پر غور فرمائیے کہ ”یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے اسکی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔“ اسکا مطلب ہے کہ وہ کوئی اور قبر ہے جہاں مرنے والے پر راحت اور عذاب کا دور گذرتا ہے۔
سورہ عبس میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ    21؀”پھر ا س کو موت دی اور قبر دی۔“(عبس: ۱۲)
 قرآن ِمجید میں ہر نفس کیلئے موت سے ہمکنار ہونا بیان فرمایا گیا ہے اور اس آیت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ جس کو موت دی جاتی ہے اس کو قبر بھی دی جاتی ہے۔ جس طرح موت دینا اللہ کا کام ہے اسی طرح قبر دینا بھی اللہ ہی کا کام ہے چاہے دنیا والے اسے دفنائیں یانہ دفنائیں ہر مرنے والے کیلئے بہرحال قبر ہے۔
 کتنے ہی لوگ ہیں کہ جن کو یہ زمینی قبر نہیں ملتی، کتنی ہی قوموں کا تذکرہ قرآن و حدیث میں ملتا ہے کہ ا ن کو عذاب کے ذریعے ہلاک کردیا گیا، کس نے ان کی قبریں بنائیں؟ بدھ مت اور ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اسی طرح سوشلسٹ و کمیونسٹ۔مجوسی اپنے مردے پرندوں کو کھلادیتے ہیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں مرتد ہو جانے والے کاتب وحی کو قبر نہ ملی۔ امیہ بن خلف زمینی گڑھے میں نہ چھپایا گیا جبکہ اللہ تعالی نے تو قبر کا ملنا ہر اس شخص کیلئے فرمایاہے جسکو موت آئے۔ آخر وہ کونسی قبر ہے کہ یہودی عورت ابھی دفن بھی نہیں ہوئی اور اسکے متعلق فرمایا گیا کہ اسے اسکی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔
 ان دلائل سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ فوت شدہ انسان کو قیامت تک ہونے والے عذاب یا راحت کا اس زمینی قبر سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔
۔
۔
طالب دعاء
رقیب الاسلام بن رشید علی سلفیؔ 
ممبئی، ہند

موت کے بعد سے قیامت قائم ہونے تک انسانی جسم کے ساتھ ہونے والا معاملہ (رقیب الاسلام سلفی)

موت کے بعد سے قیامت قائم ہونے تک انسانی جسم کے ساتھ ہونے والا معاملہ
اللہ تعالی فرماتا ہے:
اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ    (الزمر: 42)
 ”اللہ روحوں کو قبض کرلیتا ہے انکی موت کے وقت اور جنکی موت نہیں آئی انکی سوتے وقت، پھر جس پر موت کافیصلہ ہوتا ہے اسکی روح روک لیتا ہے اور دوسری ارواح کو چھوڑ دیتا ہے ایک مقررہ وقت تک کیلئے۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
 روح قبض ہو جانے کے بعد یہ جسم مردہ اور تمام حواس سے عاری ہوجاتا ہے۔ زیادہ دیر رکھنے پر سڑنے لگتا ہے لہذا اسکو جلدی دفن کردینے کا حکم ہے۔ زمین میں اسکو دفنانا بھی اللہ تعالی ہی کا سکھایا ہوا طریقہ ہے۔ (المائدہ: ۳۱)   
اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ یہ جسم مٹی میں ملکر مٹی ہو جاتا ہے۔
٭         اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ  77؀ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ ۭ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ  قُلْ يُحْيِيْهَا الَّذِيْٓ اَنْشَاَهَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِـيْمُۨ
 (یٰس : ۷۷۔۷۹ )
   ” کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے ایک نطفے سے پیدا کیا اور صرح جھگڑالو بن گیا ،اور (انسان) ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا اور کہنے لگا کہ (جب) ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہوجایئں گی تو کون ان کوزندہ کریگا۔ کہدو کہ وہ اللہ زندہ کریگا جس نے ان کوپہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے۔“
٭  ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ   16؀ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ  17؀ۭقُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ  18؀ۚ (الصفٰت: 16 تا 18)
”کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی میں ملکر مٹی بن جائیں گے اور ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی ہم پھر زندہ کر کے اٹھائے 
جائیں گے،اور ہمارے باپ دادا بھی۔ کہدو کہ ہاں اور تم (اللہ کے مقابلے) میں بے بس ہو۔“  
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
٭        وَلَيْسَ مِنْ الْإِنْسَانِ شَيْئٌ إِلَّا يَبْلَی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ  
 (عن ابی ھریرۃ ؓ۔ مسلم۔ کتاب الفتن و اشراط ساعۃ۔ باب ما بین النفختین)
”انسان کے سارے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے سوائے عجب الذنب کے، اسی پر اسے پہلے بنایا گیا تھا اور اسی پردوبارہ بنایا جائیگا۔“   
٭        حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ شَهْرًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَبَيْتُ قَالَ ثُمَّ يُنْزِلُ اللَّهُ مِنْ السَّمَائِ مَائً فَيَنْبُتُونَ کَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنْ الْإِنْسَانِ شَيْئٌ إِلَّا يَبْلَی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ    (بخاری۔کتاب التفسیر۔  سورۃ عم یتسآلون)
   ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ”صورکی دو پھونکوں کے درمیان چالیس(۰۴) کا وقفہ ہوگا۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ چالیس دن کا وقفہ؟ ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہہ نہیں سکتا۔ پھرکہنے والے نے کہا چالیس ماہ کا وقفہ؟ کہا یہ بھی نہیں کہہ سکتا۔ پوچھنے والے نے پھر کہا کہ چالیس سال کا وقفہ؟ابوھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا لیکن اس بات کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے میں نے سنا) کہ اس وقفہ کے بعد اللہ تعالی آسمان سے بارش برسائے گا اور لوگ اس سے ایسے اُگ پڑینگے جیسے سبزہ اُگتا ہے۔ انسان کے جسم کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو برباد نہ ہو جائے سوا ئے”عجب الذنب‘‘ کے اور اسی پر انسانی جسم کو قیامت کے دن پھر بنایا جائے گا“۔                                                       
بیان کردہ قرآنی آیات و احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قبر میں دفنایا گیا یہ جسم سڑ گل جاتا ہے اور ہڈیاں بھی بوسیدہ ہوکر مٹی میں مل جاتی ہیں،مرنے کے بعد اس میں زندگی کی رمق باقی نہیں رہتی بلکہ یہ مردہ اور بے جان ہو جاتا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ  19؀ۙ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ 20 ؀ۙ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ  21؀ۚ وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ ۔  ۔  ۔    ۔    ( فاطر : ۱۹ تا ۲۲ )
 ”اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں۔ نہ تاریکی اور روشنی یکساں ہے۔ نہ چھاؤں اور دھوپ ایک جیسی ہے اور نہ زندہ اور مردہ برابر ہیں‘‘۔ 
 جس طرح دیکھنے والا اور اندھا، تاریکی اور روشنی، دھوپ اور چھاؤں ایک دوسرے کی ضد ہیں اسی طرح زندہ مردہ کی ضد ہے۔ایک انسانی جسم میں تمام حواس ہوتے ہیں وہ احساس و شعور رکھتا ہے۔ سوچنے کیلئے دماغ، دیکھنے کیلئے آنکھ، سننے کیلئے کان اور بولنے کیلئے منہ اور زبان ہوتے ہیں، لیکن مردہ کی تمام حسیں اب قیامت تک کیلئے چھین لی گئی ہیں اب یہ ہر قسم کے شعور سے عاری ہوتا ہے۔ کتنی ہی قومیں اپنے مردوں کو آگ میں جلادیتی ہیں نہ کبھی کوئی مردہ اٹھ کر بھاگا اور نہ ہی کسی نے شور مچایا۔ اور یہ ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ خالق کائنات سے بڑھ کر کسی کی بات سچی نہیں ہو سکتی۔ جب اللہ تعالی خود فرمائے کہ یہ جسم گل سڑ جاتا ہے تو منہ، کان زبان اور آنکھ کے مردہ ہوجانے اور گل سڑ جانے کے بعد یہ بولے گا کہاں سے؟ سنے گا کہاں سے؟ اور دیکھے گا کہاں سے؟ اب یہ مردہ مٹی میں ملکر مٹی بن رہا ہے اس پر نہ مار کا اثر ہوتا ہے اور نہ آگ کا۔اس گلے سڑے جسم کیلئے مزید فرمایا گیا:
٭اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ   ؀ ۭبَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ  ؀ (القیامۃ: ۳۔ ۴)
   ”کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اسکی ہڈیاں جمع نہیں کرینگے۔ نہیں بلکہ ہم اسکی پور پور تک درست کرنے پر قادر ہیں۔“  
٭    قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْ ۚ (ق : ۴)  ”مٹی انکے جسموں سے جو کھا رہی ہے وہ ہمارے علم میں ہے۔“  
٭  اَفَعَيِيْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ۭ بَلْ هُمْ فِيْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ      (ق:۱۵ )
 ”کیا ہم پہلی مرتبہ پیدا کر کے تھک گئے ہیں بلکہ یہ دوبارہ پیدا کیے جانے پر شک میں پڑے ہوئے ہیں۔“  
 معلوم ہوا کہ یہی جسم جو مرنے کے بعد گل سڑ چکا تھا دوبارہ تخلیق کیا جائیگا اور جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا کہ یہ کام قیامت کے دن ہوگا۔یہی وہ دن ہے کہ جس کیلئے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ  ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ”پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤگے۔“ (المومنوں: ۱۶)
۔
۔
طالب دعاء
رقیب الاسلام بن رشید علی سلفیؔ 
ممبئی، ہند

انسان کی آخرت کہاں سے شروع ہوتی ہے ؟ (رقیب الاسلام سلفی)

انسان کی آخرت کہاں سے شروع ہوتی ہے؟

٭   جب فرشتے ظالموں کی روح قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں:
فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا” (النحل: ۲۹)
داخل ہو جاؤ جہنم کے دروازوں میں جہاں تمکو ہمیشہ رہنا ہے۔“
٭   پاک لوگوں کی روح قبض کرتے ہوئے کہتے ہیں:
سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ  (النحل: ۳۲)
”تم پر سلامتی ہو داخل ہو جاؤجنت میں ان اعمال کی وجہ سے جو تم کرتے تھے۔“
٭   سرکشوں کی روح قبض کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ (الانعام: ۹۳)
”آج تمہیں ذلت کا عذا ب د یا جائے گا۔“ 
٭   ایک شخص کو اسکی قوم والوں نے ایمان کی دعوت دینے پر شہیدکردیا اللہ تعالی نے اسکا تذکرہ اسطرح فرمایا:
قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۭ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ  26؀ۙ بِمَا غَفَرَ لِيْ رَبِّيْ وَجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُكْرَمِيْنَ  27؀  ( یٰس : ۲۶ ۔ ۲۷ )
”اس سے کہا گیا داخل ہو جا جنت میں، کہنے لگا کاش میری قوم کو معلوم ہو جائے کہ اللہ نے مجھے بخش دیا اور عزت داروں میں شامل کردیا“ 
٭عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي وَفِي يَوْمِي وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ فَجَمَعَ اللَّهُ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ الْآخِرَةِ
( عن عائشہ ؓ ، بخاری، کتاب الجنائز ، باب: مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ)

” عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مرض الموت میں مبتلا تھے تو میرے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ تعالی عنہما تشریف لائے۔ انکے ہاتھ میں مسواک تھی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مسواک کی طرف دیکھا تو میں جان گئی(کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسکی خواہش رکھتے ہیں) میں نے مسواک انکے ہاتھ سے لی اور نرم کردی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسواک کرکے واپس کرنے لگے تو وہ انکے ہاتھ سے گر گئی۔عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کا فضل دیکھو کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیا میں آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرا لعاب آپکے لعاب کے ساتھ ملادیا۔     ‘‘
 اوپر بیان کی گئی قرآنی آیات و احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جیسے ہی انسان کی روح قبض ہوتی ہے زندگی کا یہ دور ختم اور آخرت شروع ہوتے ہی اسکی جزا اور سزا یعنی را حت و عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہی عذاب و راحت قبر ہے۔

۔
۔
طالب دعاء
رقیب الاسلام بن رشید علی سلفیؔ 
ممبئی، ہند

عذاب قبر کیا ہے؟ (رقیب الاسلام سلفی)

عقیدہ عذاب قبر
اللہ تعالی کاصد ہزار شکر ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور انکے ایمان و عقائد کی اصلاح اور حفاظت کیلئے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ کتاب  نازل فرمائی اور ایمان لانے والوں کو حکم دیا”:پیروی کرو اس (ہدایت) کی جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل ہوئی ہے اور اس کو چھوڑ کر دوسرے (بناوٹی)سرپرستوں کی پیروی نہ کرو...“  (الاعراف: ۳) 
 انتہائی افسوس کی بات ہے کہ توحید کی شہادت دینے والی یہ امت کتاب اللہ کی ہدایت کو پس پشت ڈال کر قبر پرستی کے شرک میں مبتلا ہو کر رہ گئی ہے۔ عوام الناس کتاب اللہ سے دور ہوکر شیطان کے آلہ کار علماء اور مشائخ کی اندھی تقلید کا شکار ہو گئے، اور پھر من حیث القوم قبوری دین کو اختیار کرکے اللہ کے قہر و غضب کو بھڑکانے میں لگ گئے۔آج اس امت کا بگاڑ و زوال اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور انکی ذلت و رسوائی و بدحالی کے بدلنے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ قرآن حکیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے پوری طرح وابستگی اختیار کی جائے، عقائد بھی اسی کے مطابق ہوں اور اعمال بھی۔ اللہ تعالی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔
اس حقیقت سے انکار کسی طرح ممکن نہیں کہ اس قبوری دین یا قبر پرستی کے شرک کی بنیاد بہرحال ”عود روح“ کا عقیدہ ہے،جس کے تحت قبر میں دفن ہونے کے بعد سوال و جواب کیلئے مردے کو زندہ کرلیا جاتا ہے۔ قبر میں سوال و جواب سے بات شروع کرکے انبیاء اور دیگر شخصیات کو زندہ مان کر داتا،مشکل کشا اورحاجت روا بنا کر قبر پرستی کیلئے راہ ہموار کر لی جاتی ہے۔ قبر میں سوال و جواب اور پھر عذاب یا راحت بالکل حق ہے اور اسکا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔لیکن صحیح عقیدہ یہ ہے کہ یہ سوال و جواب اورعذاب و راحت اس دنیاوی قبر میں نہیں بلکہ عالم برزخ میں ہوتا ہے۔یہی صحیح موقف ہے جوقرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ درج ذیل سطور میں اس اہم مسئلے کی وضاحت انتہائی عام فہم انداز میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اللہ تعالی اس پر کھلے دل سے غور کرنے اور حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ایمان و عقیدے کی اصلاح ہو جائے اوراعمال صالحہ کی اللہ کے یہاں قدر ہو. 

عذاب قبر کیا ہے ؟

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ      ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ  ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ  ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ  ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ    ١٠١؀ۚ ( سورہ توبہ :101 )
تمہارے گردوپیش بسنے والے دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینے کے رہنے والوں میں سے جو نفاق میں طاق ہوگئے ہیں تم ان کو نہیں جانتے ہم انھیں جانتے ہیں ہم عنقریب ان کو عذاب دیں گے دو مرتبہ پھر وہ لوٹائے جائیں گے بڑے عذاب کی طرف۔ 
( دو مرتبہ یعنی دنیا میں اور پھر آخرت میں ( عذاب قبر ) اور پھر بڑے عذاب یعنی قیامت کے دن کے بعد نا ختم ہونے والا عذاب )
حدیث نبویﷺ : 
أَسْمَائَ بِنْتَ أَبِي بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَقُولُ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَذَکَرَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ الَّتِي يَفْتَتِنُ فِيهَا الْمَرْئُ فَلَمَّا ذَکَرَ ذَلِکَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً
( عن اسماء ؓ ، بخاری، کتاب الجانئز ، بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ )
’’اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی تھیں رسول اللہﷺ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو عذاب قبر کا ذکر کیا جس میں آدمی کو (مرنے کے بعد) مبتلا کیا جاتا ہے۔ تو جب آپ ؐنے اس کا ذکر کیا تو مسلمین چیخنے لگے۔ 
واضح ہوا کہ عذاب و راحت قبر کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے۔
اللہ تعالی ٰفرماتاہے:
یثبت اللہ الذین اٰمنوا بالقول الثابت فی الحیٰوۃ الدنیا و فی الاخرۃ ج (ابراھیم:۷۲)
”اللہ تعالی ایمان والوں کو اس قول ِثابت پر دنیا اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے“
اس آیت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ
( عن براء بن عازب ، بخاری، کتاب الجنائز ، بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ )
”یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔“     
٭ الْمُسْلِمُ إِذَا سُئِلَ فِي الْقَبْرِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَذَلِکَ قَوْلُهُ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ
( عن براء بن عازب ،بخاری، کتاب تفسیر القرآن ، باب: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالقَوْلِ الثَّابِتِ )
”قبر میں مسلم سے جب سوال کیا جاتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں اورمحمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں“۔لہذا اس قول ثابت سے مراد یہی ہے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کو دنیا و آخرت میں ثابت قدم رکھے گا۔“                                                                                
  معلوم ہوا کہ عذاب و راحت قبر کا تعلق انسان کی آخرت سے ہے۔ آئیے قرآن و حدیث سے معلوم کریں کہ انسان کی آخرت کہاں سے شروع ہوتی ہے۔
۔
۔
طالب دعاء
رقیب الالسلام بن رشید علی السلفی
ممبئی، ہند

جمعرات، 4 مئی، 2017

رمضان کے روزے دوسرے رمضان کے آنے تک مؤخر کرنے کا حکم رقیب الاسلام سلفی

رمضان کے روزے دوسرے رمضان کے آنے تک مؤخر کرنے کا حکم
         
   الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله أما بعد!
            علماء كرام اس بات پر متفق ہيں كہ جس نےبھی رمضان المبارك كےروزےکسی بناپرنہ ركھے اس پرآئندہ رمضان آنے سے قبل روزوں كي قضاء كرني واجب ہے . اسکی دلیل حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی حدیث ہے:
            "عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ : كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلَّا فِي شَعْبَانَقَالَ يَحْيَى : الشُّغْلُ مِنَ النَّبِيِّ، أَوْ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".(رواہ البخاری:1950)
       عائشہ رضي اللہ تعال بيان كرتي ہيں كہ: (ميرے ذمہ رمضان المبارك كےروزہ ہوتے تو ميں اس كي قضاء شعبان كےعلاوہ كسي اور مہينہ ميں نہیں كرسكتي تھي، اور يہ نبي كريم صلي اللہ صلي اللہ عليہ وسلم كے مرتبہ كي بنا پر) صحيح بخاري (1950) صحيح مسلم (1146)
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں: عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا كي شعبان ميں حرص كي بنا پر يہ دلیل پکڑی جا سكتی ہے كہ رمضان كےروزوں كي قضاء ميں اتني تاخير كرني جائز نہيں كہ دوسرا رمضان شروع ہوجائے اھ . اور اگر كسي نے رمضان كي قضاء ميں اتنی تاخير كردی كہ دوسرا رمضان بھي شروع ہوگيا تويہ دوصورتوں سے خالی نہيں :
 پہلی صورت : يہ تاخير كسی عذر كي بنا پر ہو، مثلا اگروہ مريض تھا اور دوسرا رمضان شروع ہونے تک وہ بيمار ہی رہا تواس پر تاخير كرنے ميں كوئی گناہ نہيں كيونكہ يہ معذور ہے، اوراس كےذمہ قضاء كےعلاوہ كچھ نہيں لہذا وہ ان ايام كي قضاء كرے گا جواس نے چھوڑے تھے.
 دوسري صورت : بنا كسی عذر كےتاخير كرنا : مثلا اگر وہ قضاء كرنا چاہتا تو كرسكتا تھا ليكن اس نےآئندہ رمضان شروع ہونےتک قضاء كےروزے نہيں ركھے . تو يہ شخص بغير كسي عذر كےقضاء ميں تاخير كرنے پر گنہگار ہوگا، اور علماء كرام كا متفقہ فيصلہ ہے كہ اس پر قضاءلازم ہے، ليكن قضاء كےساتھ ہر دن كےبدلے ايك مسكين كوكھانا كھلانے ميں اختلاف ہے كہ آيا وہ كھانا كھلائے يا نہيں ؟ امام مالك، امام شافعي اور امام احمد رحمھم اللہ تعالي كہتے ہيں كہ اس كےذمہ كھانا ہے اور انہوں نےاس سے استدلال كيا ہے كہ: بعض صحابہ كرام مثلا ابوھريرہ اور ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھم سے يہ ثابت ہے . اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں كہ قضاء كےساتھ كھانا كھلانا واجب نہيں . انہوں اس سے استدلال كيا ہے كہ: اللہ تعالي نے رمضان ميں روزہ چھوڑنے والےكوصرف قضاء كا حكم ديا ہے اور كھانا كھلانے كاذكر نہيں كيا، فرمان باري تعالي ہے:
      
 وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡن"(البقرۃ)َ ﴿۱۸۵ 
{ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اُسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے اللہ تعالٰی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالٰی کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو} ۔ ديكھيں: المجوع ( 6 / 366 ) المعني ( 4 / 400 ) 

اورامام بخاري رحمہ اللہ نے اپني صحيح بخاري ميں اس دوسرے قول كو ہي اختيار كيا ہے. امام بخاري كہتےہيں:
         ابراھيم نخعي رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں: جب كسي نے كوتاہی كي حتي كہ دوسرا رمضان شروع ہوگيا تووہ روزے ركھےگا اور اس كےذمہ كھانا كھلانا نہيں اور ابي ھريرہ رضي اللہ اورابن عباس رضي اللہ تعالي عنھم سے مرسلا مروي ہےكہ وہ كھانا كھلائےگا، پھر امام بخاري كہتے ہيں: اور اللہ تعالي نے كھانا كھلانےكا ذكر نہيں كيا بلكہ يہ فرمايا: ( دوسرے ايام ميں گنتي پوري كرے ) اھ .

 اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كھانا كےعدم وجوب كا فيصلہ كرتے ہوئے كہتےہيں:
        اور رہا صحابہ كرام رضوان اللہ عليھم اجمعين كےاقوال جب قرآن مجيد كےظاہرا خلاف ہوں تو اسے حجت ماننا محل نظر ہے، اور يہاں كھانا كھلانا قرآن مجيد كےظاہرا خلاف ہے كيونكہ اللہ تعالي نے توصرف دوسرے ايام ميں گنتي پوري كرنا واجب قرار ديا ہے، اس سےزيادہ كچھ واجب نہيں كيا، تواس بنا پر ہم اللہ كےبندوں پروہ لازم نہيں كرينگےجواللہ تعالي نےان پرلازم نہيں كيا ليكن اگر دليل مل جائے توپھر تا كہ ذمہ سے بري ہوسكيں، ابن عباس اور ابو ھريرہ رضي اللہ تعالي عنھم سےجومروي ہے يہ ممكن ہےكہ اسے استحباب پر محمول كيا جائے نہ كہ وجوب پر، تواس مسئلہ ميں صحيح يہي ہےكہ اس پر روزوں سے زيادہ كسي چيز كو لازم نہيں كيا جائےگا، ليكن تاخير كي بنا پر وہ گنہگار ضرور ہے. اھ ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 451 )
 اور اس بناپر واجب توصرف قضاء ہي ہے، اور جب انسان احتياط كرنا چاہے تو ہر دن كےبدلے ايك مسكين كو كھانا بھي كھلائے توبہتر اوراحسن اقدام ہوگا. (اگر اس نے بغير كسي عذر كےتاخير كي ہے تو ) .
       اللہ تعالي سے دعا ہے كہ وہ ہميں اپني رضا و خوشنودي اور پسند كےكام كرنے كي توفيق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔

Haqeeqi Kaamiyabi | حقیقی کامیابی | اولاد کی تربیت

حقیقی کامیابی  اولاد کا ڈاکٹر انجینئر اور اعلی تعلیم یافتہ ہونا کامیابی نہیں ؛ بلکہ اولاد کا نیک ہونا سعادت مندی اور بڑی کامیابی ہے۔۔۔ نیک ا...