ہفتہ، 8 جولائی، 2017

موت کے بعد سے قیامت قائم ہونے تک انسانی جسم کے ساتھ ہونے والا معاملہ (رقیب الاسلام سلفی)

موت کے بعد سے قیامت قائم ہونے تک انسانی جسم کے ساتھ ہونے والا معاملہ
اللہ تعالی فرماتا ہے:
اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ    (الزمر: 42)
 ”اللہ روحوں کو قبض کرلیتا ہے انکی موت کے وقت اور جنکی موت نہیں آئی انکی سوتے وقت، پھر جس پر موت کافیصلہ ہوتا ہے اسکی روح روک لیتا ہے اور دوسری ارواح کو چھوڑ دیتا ہے ایک مقررہ وقت تک کیلئے۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
 روح قبض ہو جانے کے بعد یہ جسم مردہ اور تمام حواس سے عاری ہوجاتا ہے۔ زیادہ دیر رکھنے پر سڑنے لگتا ہے لہذا اسکو جلدی دفن کردینے کا حکم ہے۔ زمین میں اسکو دفنانا بھی اللہ تعالی ہی کا سکھایا ہوا طریقہ ہے۔ (المائدہ: ۳۱)   
اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ یہ جسم مٹی میں ملکر مٹی ہو جاتا ہے۔
٭         اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ  77؀ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ ۭ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ  قُلْ يُحْيِيْهَا الَّذِيْٓ اَنْشَاَهَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِـيْمُۨ
 (یٰس : ۷۷۔۷۹ )
   ” کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے ایک نطفے سے پیدا کیا اور صرح جھگڑالو بن گیا ،اور (انسان) ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا اور کہنے لگا کہ (جب) ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہوجایئں گی تو کون ان کوزندہ کریگا۔ کہدو کہ وہ اللہ زندہ کریگا جس نے ان کوپہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے۔“
٭  ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ   16؀ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ  17؀ۭقُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ  18؀ۚ (الصفٰت: 16 تا 18)
”کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی میں ملکر مٹی بن جائیں گے اور ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی ہم پھر زندہ کر کے اٹھائے 
جائیں گے،اور ہمارے باپ دادا بھی۔ کہدو کہ ہاں اور تم (اللہ کے مقابلے) میں بے بس ہو۔“  
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
٭        وَلَيْسَ مِنْ الْإِنْسَانِ شَيْئٌ إِلَّا يَبْلَی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ  
 (عن ابی ھریرۃ ؓ۔ مسلم۔ کتاب الفتن و اشراط ساعۃ۔ باب ما بین النفختین)
”انسان کے سارے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے سوائے عجب الذنب کے، اسی پر اسے پہلے بنایا گیا تھا اور اسی پردوبارہ بنایا جائیگا۔“   
٭        حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ شَهْرًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَبَيْتُ قَالَ ثُمَّ يُنْزِلُ اللَّهُ مِنْ السَّمَائِ مَائً فَيَنْبُتُونَ کَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنْ الْإِنْسَانِ شَيْئٌ إِلَّا يَبْلَی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ    (بخاری۔کتاب التفسیر۔  سورۃ عم یتسآلون)
   ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ”صورکی دو پھونکوں کے درمیان چالیس(۰۴) کا وقفہ ہوگا۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ چالیس دن کا وقفہ؟ ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہہ نہیں سکتا۔ پھرکہنے والے نے کہا چالیس ماہ کا وقفہ؟ کہا یہ بھی نہیں کہہ سکتا۔ پوچھنے والے نے پھر کہا کہ چالیس سال کا وقفہ؟ابوھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا لیکن اس بات کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے میں نے سنا) کہ اس وقفہ کے بعد اللہ تعالی آسمان سے بارش برسائے گا اور لوگ اس سے ایسے اُگ پڑینگے جیسے سبزہ اُگتا ہے۔ انسان کے جسم کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو برباد نہ ہو جائے سوا ئے”عجب الذنب‘‘ کے اور اسی پر انسانی جسم کو قیامت کے دن پھر بنایا جائے گا“۔                                                       
بیان کردہ قرآنی آیات و احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قبر میں دفنایا گیا یہ جسم سڑ گل جاتا ہے اور ہڈیاں بھی بوسیدہ ہوکر مٹی میں مل جاتی ہیں،مرنے کے بعد اس میں زندگی کی رمق باقی نہیں رہتی بلکہ یہ مردہ اور بے جان ہو جاتا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ  19؀ۙ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ 20 ؀ۙ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ  21؀ۚ وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ ۔  ۔  ۔    ۔    ( فاطر : ۱۹ تا ۲۲ )
 ”اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں۔ نہ تاریکی اور روشنی یکساں ہے۔ نہ چھاؤں اور دھوپ ایک جیسی ہے اور نہ زندہ اور مردہ برابر ہیں‘‘۔ 
 جس طرح دیکھنے والا اور اندھا، تاریکی اور روشنی، دھوپ اور چھاؤں ایک دوسرے کی ضد ہیں اسی طرح زندہ مردہ کی ضد ہے۔ایک انسانی جسم میں تمام حواس ہوتے ہیں وہ احساس و شعور رکھتا ہے۔ سوچنے کیلئے دماغ، دیکھنے کیلئے آنکھ، سننے کیلئے کان اور بولنے کیلئے منہ اور زبان ہوتے ہیں، لیکن مردہ کی تمام حسیں اب قیامت تک کیلئے چھین لی گئی ہیں اب یہ ہر قسم کے شعور سے عاری ہوتا ہے۔ کتنی ہی قومیں اپنے مردوں کو آگ میں جلادیتی ہیں نہ کبھی کوئی مردہ اٹھ کر بھاگا اور نہ ہی کسی نے شور مچایا۔ اور یہ ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ خالق کائنات سے بڑھ کر کسی کی بات سچی نہیں ہو سکتی۔ جب اللہ تعالی خود فرمائے کہ یہ جسم گل سڑ جاتا ہے تو منہ، کان زبان اور آنکھ کے مردہ ہوجانے اور گل سڑ جانے کے بعد یہ بولے گا کہاں سے؟ سنے گا کہاں سے؟ اور دیکھے گا کہاں سے؟ اب یہ مردہ مٹی میں ملکر مٹی بن رہا ہے اس پر نہ مار کا اثر ہوتا ہے اور نہ آگ کا۔اس گلے سڑے جسم کیلئے مزید فرمایا گیا:
٭اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ   ؀ ۭبَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ  ؀ (القیامۃ: ۳۔ ۴)
   ”کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اسکی ہڈیاں جمع نہیں کرینگے۔ نہیں بلکہ ہم اسکی پور پور تک درست کرنے پر قادر ہیں۔“  
٭    قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْ ۚ (ق : ۴)  ”مٹی انکے جسموں سے جو کھا رہی ہے وہ ہمارے علم میں ہے۔“  
٭  اَفَعَيِيْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ۭ بَلْ هُمْ فِيْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ      (ق:۱۵ )
 ”کیا ہم پہلی مرتبہ پیدا کر کے تھک گئے ہیں بلکہ یہ دوبارہ پیدا کیے جانے پر شک میں پڑے ہوئے ہیں۔“  
 معلوم ہوا کہ یہی جسم جو مرنے کے بعد گل سڑ چکا تھا دوبارہ تخلیق کیا جائیگا اور جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا کہ یہ کام قیامت کے دن ہوگا۔یہی وہ دن ہے کہ جس کیلئے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ  ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ”پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤگے۔“ (المومنوں: ۱۶)
۔
۔
طالب دعاء
رقیب الاسلام بن رشید علی سلفیؔ 
ممبئی، ہند

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Haqeeqi Kaamiyabi | حقیقی کامیابی | اولاد کی تربیت

حقیقی کامیابی  اولاد کا ڈاکٹر انجینئر اور اعلی تعلیم یافتہ ہونا کامیابی نہیں ؛ بلکہ اولاد کا نیک ہونا سعادت مندی اور بڑی کامیابی ہے۔۔۔ نیک ا...